سنن النسائي - حدیث 1115

كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب مَثَلِ الَّذِي يُصَلِّي وَرَأْسُهُ مَعْقُوص صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو السَّرْحِيُّ مِنْ وَلَدِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ يُصَلِّي وَرَأْسُهُ مَعْقُوصٌ مِنْ وَرَائِهِ فَقَامَ فَجَعَلَ يَحُلُّهُ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ مَا لَكَ وَرَأْسِي قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا مَثَلُ هَذَا مَثَلُ الَّذِي يُصَلِّي وَهُوَ مَكْتُوفٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1115

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان جو شخص بالوں کا جوڑا بنا کر نماز پڑھے، اس کی مثال؟ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن حارث کو نماز پڑھتے دیکھا جب کہ وہ سر کے بالوں کا جوڑا بنا کر اسے پیچھے باندھے ہوئے تھے۔ آپ اٹھے اور بالوں کا جوڑا (گچھا) کھولنے لگے۔ عبداللہ بن حارث نماز سے فارغ ہوئے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے: آپ کو میرے بالوں سے کیا شکایت تھی؟ (جو آپ نے انھیں کھولا) انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اس قسم کے نمازی کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں (کسی مشکوں) سے نماز پڑھتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)جس طرح پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں والا بہت ناقص نماز پڑھتا ہے، اسی طرح بندھے ہوئے بالوں والا اپنے بالوں کو ثواب سے محروم رکھتا ہے، بخلاف اس کے اگر وہ بال زمین پر لگتے تو ان کا بھی سجدہ شمار ہوتا اور انھیں ثواب ملتا۔ گویا نماز سے پہلے بھی بالوں کا جوڑا نہیں بنا ہونا چاہیے، چہ جائیکہ کوئی نماز میں ایسے کرے۔ (۲) خلاف شرع کام ہوتا دیکھ کر موقع ہی پر تنبیہ کر دینی چاہیے، خواہ مخواہ یا بالکل سکوت نہیں کرنا چاہیے۔ (۳) برائی کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت ہو تو اسے ہاتھ سے مٹا دینا چاہیے۔ (۴) خبر واحد حجت ہے۔ (۱)جس طرح پیچھے بندھے ہوئے ہاتھوں والا بہت ناقص نماز پڑھتا ہے، اسی طرح بندھے ہوئے بالوں والا اپنے بالوں کو ثواب سے محروم رکھتا ہے، بخلاف اس کے اگر وہ بال زمین پر لگتے تو ان کا بھی سجدہ شمار ہوتا اور انھیں ثواب ملتا۔ گویا نماز سے پہلے بھی بالوں کا جوڑا نہیں بنا ہونا چاہیے، چہ جائیکہ کوئی نماز میں ایسے کرے۔ (۲) خلاف شرع کام ہوتا دیکھ کر موقع ہی پر تنبیہ کر دینی چاہیے، خواہ مخواہ یا بالکل سکوت نہیں کرنا چاہیے۔ (۳) برائی کو ہاتھ سے مٹانے کی طاقت ہو تو اسے ہاتھ سے مٹا دینا چاہیے۔ (۴) خبر واحد حجت ہے۔