سنن النسائي - حدیث 1114

كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب النَّهْيِ عَنْ كَفِّ الشَّعْرِ فِي السُّجُود صحيح أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَرَوْحٌ يَعْنِي ابْنَ الْقَاسِمِ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةٍ وَلَا أَكُفَّ شَعْرًا وَلَا ثَوْبًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1114

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان سجدے میں بال سمیٹنے کی ممانعت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں اور (سجدے میں جاتے وقت) بال اور کپڑے نہ سمیٹوں۔‘‘
تشریح : عرب لوگ عموماً سر کے بال بڑے رکھتے تھے اور کھلی آستینوں والی قمیص پہنتے تھے۔ سجدے میں جاتے تو بالوں اور آستینوں کو مٹی سے بچانے کے لیے یعض لوگ بالوں کو بار بار سمیٹتے اور انھیں اکٹھا کرتے یا انھیں سر پر کچھے کی صورت میں باندھ لیتے۔ اسی طرح وہ آستینیں چڑھا لیتے چونکہ یہ غیر ضروری حرکت ہے جو نماز میں منع ہے، لہٰذا اس سے روک دیا گیا، البتہ اگر پہلے سے بال باندھ لیے گئے ہوں یا آستینیں چڑھالی گئی ہوں اور نماز کے دوران میں کچھ نہ کیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک جائز ہے مگر اگلی حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں مٹی سے بچنے کی قصداً کوشش کرنا تکبر کے ذیل میں آتا ہے بلکہ ہر عضو کو جو زمین پر لگتا ہے، لگنے دے۔ مٹی کا لگنا تکبر کی نفی ہے اور طبیعت میں تواضع پیدا ہوتی ہے ورنہ نمازی کس کس چیز کو مٹی سے بچائے گا؟ چہرے کو؟ ہاتھوں کو؟ گھٹنوں کو؟ پاؤں کو؟ ازار کو؟ پگڑی کو؟ مٹی تو ضرور ہی لگے گی۔ عرب لوگ عموماً سر کے بال بڑے رکھتے تھے اور کھلی آستینوں والی قمیص پہنتے تھے۔ سجدے میں جاتے تو بالوں اور آستینوں کو مٹی سے بچانے کے لیے یعض لوگ بالوں کو بار بار سمیٹتے اور انھیں اکٹھا کرتے یا انھیں سر پر کچھے کی صورت میں باندھ لیتے۔ اسی طرح وہ آستینیں چڑھا لیتے چونکہ یہ غیر ضروری حرکت ہے جو نماز میں منع ہے، لہٰذا اس سے روک دیا گیا، البتہ اگر پہلے سے بال باندھ لیے گئے ہوں یا آستینیں چڑھالی گئی ہوں اور نماز کے دوران میں کچھ نہ کیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک جائز ہے مگر اگلی حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں مٹی سے بچنے کی قصداً کوشش کرنا تکبر کے ذیل میں آتا ہے بلکہ ہر عضو کو جو زمین پر لگتا ہے، لگنے دے۔ مٹی کا لگنا تکبر کی نفی ہے اور طبیعت میں تواضع پیدا ہوتی ہے ورنہ نمازی کس کس چیز کو مٹی سے بچائے گا؟ چہرے کو؟ ہاتھوں کو؟ گھٹنوں کو؟ پاؤں کو؟ ازار کو؟ پگڑی کو؟ مٹی تو ضرور ہی لگے گی۔