سنن النسائي - حدیث 111

صِفَةُ الْوُضُوءِ بَاب إِيجَابِ غَسْلُ الرِّجْلَيْنِ صحيح أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ح وَأَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ أَبِي يَحْيَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا يَتَوَضَّئُونَ فَرَأَى أَعْقَابَهُمْ تَلُوحُ فَقَالَ وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنْ النَّارِ أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 111

کتاب: وضو کا طریقہ پاؤں کو دھونا واجب ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے دیکھا۔ آپ نے دیکھا کہ ان کی ایڑیاں خشک ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’ان ایڑیوں کے لیے آگ کی تباہی ہے، وضو اچھی طرح کیا کرو۔‘‘
تشریح : (۱) امام نسائی رحمہ اللہ اس باب کے تحت یہ احادیث لا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو میں پاؤں دھونا واجب ہے کیونکہ اگر پاؤں پر مسح کا حکم ہوتا اور اسے دھونا واجب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید نہ سناتے۔ جب صرف ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید ہے تو پورا پاؤں نہ دھونا اور صرف مسح پر اکتفا کرنا کس طرح درست ہوسکتا ہے، البتہ وضو کرنے کے بعد پہنی ہوئی جرابوں اور موزوں پر مسح کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: ۱۸۲، و صحیح مسلم، الطھارۃ، حدیث: ۲۷۴، و جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: ۹۹) (۲) [ویل للاعقاب……… الخ] بددعا بھی ہوسکتی ہے اور خبر بھی۔ (۱) امام نسائی رحمہ اللہ اس باب کے تحت یہ احادیث لا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وضو میں پاؤں دھونا واجب ہے کیونکہ اگر پاؤں پر مسح کا حکم ہوتا اور اسے دھونا واجب نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید نہ سناتے۔ جب صرف ایڑیوں کے خشک رہ جانے پر اس قدر سخت وعید ہے تو پورا پاؤں نہ دھونا اور صرف مسح پر اکتفا کرنا کس طرح درست ہوسکتا ہے، البتہ وضو کرنے کے بعد پہنی ہوئی جرابوں اور موزوں پر مسح کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: ۱۸۲، و صحیح مسلم، الطھارۃ، حدیث: ۲۷۴، و جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: ۹۹) (۲) [ویل للاعقاب……… الخ] بددعا بھی ہوسکتی ہے اور خبر بھی۔