سنن النسائي - حدیث 1101

كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب نَصْبِ الْقَدَمَيْنِ فِي السُّجُودِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدَةُ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ وَقَدَمَاهُ مَنْصُوبَتَانِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَبِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1101

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان سجدے میں پاؤں کھڑے کرنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا۔ (میں نے ٹٹولنا شروع کیا) میرا ہاتھ آپ کو لگا تو آپ سجدے میں تھے اور آپ کے دونوں پاؤں کھڑے تھے اور آپ پڑھ رہے تھے: [اللھم! انی اعوذ برضاک……… کما اثئیت علی نفسک] ’’اے اللہ! میں تیرے غصے سے (بچنے کے لیے) تیری رضا مندی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے (بچنے کے لیے) تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ (تیرے عذاب) سے (بچنے کے لیے) تیری (رحمت کی) پناہ میں آتا ہوں۔ میں تیری پوری تعریف نہیں کرسکتا۔ تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے ود اپنی تعریف کی ہے۔‘‘
تشریح : سجدے کی حالت میں فطری طور پر پاؤں کھڑے ہی ہوتے ہیں۔ اس فطرت کو قائم رہنا چاہیے، یعنی پاؤں کو کسی ایک طرف بچھایا نہ جائے بلکہ پاؤں سیدھے کھڑے ہوں اور ایڑیاں ملی ہوئی ہوں، درمیان میں فاصلہ نہ ہو۔ انگلیاں جس قدر مڑ سکیں انھیں قبلہ رخ موڑ لیا جائے۔ جو نہ مڑ سکیں انھیں زمین پر لگا لیا جائے۔ چھوٹی انگلیاں زمین پر نہ لگ سکیں تو کوئی حرج نہیں۔ سجدے کی حالت میں فطری طور پر پاؤں کھڑے ہی ہوتے ہیں۔ اس فطرت کو قائم رہنا چاہیے، یعنی پاؤں کو کسی ایک طرف بچھایا نہ جائے بلکہ پاؤں سیدھے کھڑے ہوں اور ایڑیاں ملی ہوئی ہوں، درمیان میں فاصلہ نہ ہو۔ انگلیاں جس قدر مڑ سکیں انھیں قبلہ رخ موڑ لیا جائے۔ جو نہ مڑ سکیں انھیں زمین پر لگا لیا جائے۔ چھوٹی انگلیاں زمین پر نہ لگ سکیں تو کوئی حرج نہیں۔