سنن النسائي - حدیث 1092

كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب أَوَّلِ مَا يَصِلُ إِلَى الْأَرْضِ مِنْ الْإِنْسَانِ فِي سُجُودِهِ صحيح أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ مِنْ كِتَابِهِ قَالَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ وَلَا يَبْرُكْ بُرُوكَ الْبَعِيرِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1092

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان سجدے کو جاتے وقت انسان کا کون سا عضو زمین پر پہلے لگنا چاہیے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی آدمی سجدہ کرنے لگے تو اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے اور اونٹ کی طرح نہ بیٹھے۔‘‘
تشریح : باب کی تیسری روایت دوسری روایت کی تفصیل ہے اور یہ پہلی روایت کے بالکل الٹ ہے۔ پہلی روایت اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے جیسا کہ محقق کتاب نے بھی اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے، تاہم بعض نے اسے صحیح بھی کہا ہے، اس لیے ان کے نزدیک دونوں طرح جائز ہے کیونکہ ان کے خیال میں دونوں روایات صحیح ہیں۔ احناف وغیرہ نے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ جو عضو زمین کے زیادہ قریب ہے، وہ پہلے لگنا چاہیے اور جو دور ہے، وہ بعد میں۔ اکثر محدثین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ حضرت وائلرضی اللہ عنہ کی روایت پر عمل کرنے سے اونٹ سے مشابہت ہوتی ہے اور اس مشابہت سے روکا گیا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ہاتھ پہلے رکھنے چاہئیں گھٹنے بعد میں کیونکہ یہ فطرت انسانیہ کے مطابق ہے۔ اللہ تعالی ٰنے انسان کو سہمارے کے لیے ہاتھ دیے ہیں۔ جانور تو مجبور ہیں کہ ان کے پاس ہاتھ نہیں ہیں، لہٰذا وہ بغیر سہارے کے بیٹھتے اٹھتے ہیں بلکہ سب کام بغیر ہاتھوں کے کرتے ہیں: کھانا، پینا، مارنا وغیرہ۔ مگر انسان کے لیے ہاتھوں کا استعمال ضروری ہے ورنہ جانوروں سے مشابہت ہو جائے گی۔ حدی ثمیں اونٹ کا ذکر ہے۔ اونٹ بیٹھتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھتا ہے۔ اگر گھٹنے پہلے رکھے جائیں تو ہاتھوں کا سہارا نہ ہونے کی وجہ سے گھٹنے اونٹ کی طرح زمین پر ٹکیں گے۔ بوڑھوں کے لیے مشکل بھی ہے اور چوٹ لگنے یا گرنے کا خطرہ بھی، لہٰذا اٹھتے بیٹھتے وقت ہاتھوں کا سہارا چاہیے، یعنی بیٹھتے وقت پہلے ہاتھ رکھیں، پھر گھٹنے اور اٹھتے وقت پہلے گھٹنے اٹھائیں، پھر ہاتھ۔ یاد رہے! اونٹ (بلکہ سب جانوروں) کے گھٹنے اگلے پاؤں میں ہتے ہیں، شکلا بھی، فعلا بھی، اور پچھلی ٹانگیں انسانوں کے بازوؤں جیسی ہوتی ہیں۔ چونکہ اونٹ سیدھا گھٹنوں پر بیٹھتا ہے، اس لیے اس کا خاص ذکر کیا گیا ہے اور اس کی مشابہت سے روکا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔ باب کی تیسری روایت دوسری روایت کی تفصیل ہے اور یہ پہلی روایت کے بالکل الٹ ہے۔ پہلی روایت اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے جیسا کہ محقق کتاب نے بھی اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے، تاہم بعض نے اسے صحیح بھی کہا ہے، اس لیے ان کے نزدیک دونوں طرح جائز ہے کیونکہ ان کے خیال میں دونوں روایات صحیح ہیں۔ احناف وغیرہ نے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ جو عضو زمین کے زیادہ قریب ہے، وہ پہلے لگنا چاہیے اور جو دور ہے، وہ بعد میں۔ اکثر محدثین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ حضرت وائلرضی اللہ عنہ کی روایت پر عمل کرنے سے اونٹ سے مشابہت ہوتی ہے اور اس مشابہت سے روکا گیا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ہاتھ پہلے رکھنے چاہئیں گھٹنے بعد میں کیونکہ یہ فطرت انسانیہ کے مطابق ہے۔ اللہ تعالی ٰنے انسان کو سہمارے کے لیے ہاتھ دیے ہیں۔ جانور تو مجبور ہیں کہ ان کے پاس ہاتھ نہیں ہیں، لہٰذا وہ بغیر سہارے کے بیٹھتے اٹھتے ہیں بلکہ سب کام بغیر ہاتھوں کے کرتے ہیں: کھانا، پینا، مارنا وغیرہ۔ مگر انسان کے لیے ہاتھوں کا استعمال ضروری ہے ورنہ جانوروں سے مشابہت ہو جائے گی۔ حدی ثمیں اونٹ کا ذکر ہے۔ اونٹ بیٹھتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھتا ہے۔ اگر گھٹنے پہلے رکھے جائیں تو ہاتھوں کا سہارا نہ ہونے کی وجہ سے گھٹنے اونٹ کی طرح زمین پر ٹکیں گے۔ بوڑھوں کے لیے مشکل بھی ہے اور چوٹ لگنے یا گرنے کا خطرہ بھی، لہٰذا اٹھتے بیٹھتے وقت ہاتھوں کا سہارا چاہیے، یعنی بیٹھتے وقت پہلے ہاتھ رکھیں، پھر گھٹنے اور اٹھتے وقت پہلے گھٹنے اٹھائیں، پھر ہاتھ۔ یاد رہے! اونٹ (بلکہ سب جانوروں) کے گھٹنے اگلے پاؤں میں ہتے ہیں، شکلا بھی، فعلا بھی، اور پچھلی ٹانگیں انسانوں کے بازوؤں جیسی ہوتی ہیں۔ چونکہ اونٹ سیدھا گھٹنوں پر بیٹھتا ہے، اس لیے اس کا خاص ذکر کیا گیا ہے اور اس کی مشابہت سے روکا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔