سنن النسائي - حدیث 1082

كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب تَبْرِيدِ الْحَصَى لِلسُّجُودِ عَلَيْهِ حسن أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبَّادٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فَآخُذُ قَبْضَةً مِنْ حَصًى فِي كَفِّي أُبَرِّدُهُ ثُمَّ أُحَوِّلُهُ فِي كَفِّي الْآخَرِ فَإِذَا سَجَدْتُ وَضَعْتُهُ لِجَبْهَتِي

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1082

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان سجدہ کرنے کے لیے گرم کنکریوں کو ٹھنڈا کرنا حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھا کرتے تھے تو میں اپنی مٹھی میں کچھ کنکریاں پکڑ لیتا تھا تاکہ انھیں ٹھنڈا کروں۔ پھر (جب ہاتھ جلنے لگتا تو) انھیں دوسری ہتھیلی میں منتقل کر لیتا تھا۔ پھر جب میں سجدہ کرتا تو انھیں اپنے ماتھے کے نیچے رکھ لیتا۔
تشریح : (۱) زمین گرم ہوتی تھی۔ براہ راست شدید گرم زمین پر ماتھا رکھنا انتہائی مشکل تھا، لہٰذا نسبتاً ٹھنڈی کنکریاں بچھا کر ان پر ماتھا رکھ لیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ بھی لمبا ہوتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے نماز یا نمازی کی مصلحت کے لیے نماز کے علاوہ کوئی فعل کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ فعل کی حد بندی ممکن نہیں ہے، البتہ ایسا مشغول نہ ہو کہ دیکھنے والا اسے نماز سے خارج تصور کرے۔ (۲) یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز ظہر جلدی ادا کرنی چاہیے اور اسے اس قدر لیٹ نہیں کرنا چاہیے کہ زمین ٹھنڈی ہونے کا انتظار کیا جائے۔ اس طرح تو اس کا وقت نکل جائے گا۔ حدیث میں جو ابراد ظہر کا حکم ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ زوال کے بعد تھوڑا بہت انتظار کر لیا جائے تاکہ عین زوال شمس کے وقت دھوپ کی جو شدت اور تمازت ہوتی ہے، اس میں قدرے کمی آ جائے اور سائے ڈھل جائیں تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ مسجد میں آسکیں، ورنہ گرمی اور زمین کی تپش تو عصر کے وقت بھی ختم نہیں ہوتی۔ (۳) دوران نماز میں تکلیف اور ضرر کی تلافی کی جا سکتی ہے، اس طرح کے عمل سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ (۴) نماز کا اہتمام ضروری ہے اگرچہ اس کے لیے مشقت برداشت کرنی پڑے۔ (۵) ان تمام سہولیات و مراعات کو زیر استعمال لایا جا سکتا ہے جو خشوع میں اضافے کا باعث ہوں۔ (۶) کسی صحابی کا یہ کہنا کہ ’’ہم ایسے کیا کرتے تھے‘‘ مرفوع کے حکم میں ہے۔ لیکن یہاں اس سے بھی قوی قرینہ موجود ہے۔ وہ یہ کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ اس اعتبار سے اس کا مرفوع ہونا زیادہ قوی ہے۔ واللہ اعلم۔ (۱) زمین گرم ہوتی تھی۔ براہ راست شدید گرم زمین پر ماتھا رکھنا انتہائی مشکل تھا، لہٰذا نسبتاً ٹھنڈی کنکریاں بچھا کر ان پر ماتھا رکھ لیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ بھی لمبا ہوتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے نماز یا نمازی کی مصلحت کے لیے نماز کے علاوہ کوئی فعل کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ فعل کی حد بندی ممکن نہیں ہے، البتہ ایسا مشغول نہ ہو کہ دیکھنے والا اسے نماز سے خارج تصور کرے۔ (۲) یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز ظہر جلدی ادا کرنی چاہیے اور اسے اس قدر لیٹ نہیں کرنا چاہیے کہ زمین ٹھنڈی ہونے کا انتظار کیا جائے۔ اس طرح تو اس کا وقت نکل جائے گا۔ حدیث میں جو ابراد ظہر کا حکم ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ زوال کے بعد تھوڑا بہت انتظار کر لیا جائے تاکہ عین زوال شمس کے وقت دھوپ کی جو شدت اور تمازت ہوتی ہے، اس میں قدرے کمی آ جائے اور سائے ڈھل جائیں تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ مسجد میں آسکیں، ورنہ گرمی اور زمین کی تپش تو عصر کے وقت بھی ختم نہیں ہوتی۔ (۳) دوران نماز میں تکلیف اور ضرر کی تلافی کی جا سکتی ہے، اس طرح کے عمل سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ (۴) نماز کا اہتمام ضروری ہے اگرچہ اس کے لیے مشقت برداشت کرنی پڑے۔ (۵) ان تمام سہولیات و مراعات کو زیر استعمال لایا جا سکتا ہے جو خشوع میں اضافے کا باعث ہوں۔ (۶) کسی صحابی کا یہ کہنا کہ ’’ہم ایسے کیا کرتے تھے‘‘ مرفوع کے حکم میں ہے۔ لیکن یہاں اس سے بھی قوی قرینہ موجود ہے۔ وہ یہ کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازیوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ اس اعتبار سے اس کا مرفوع ہونا زیادہ قوی ہے۔ واللہ اعلم۔