كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَابُ قَوْلِهِ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا مُوسَى قَالَ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا وَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا فَقَالَ إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ فَإِذَا كَبَّرَ الْإِمَامُ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمْ اللَّهُ وَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعْ اللَّهُ لَكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتِلْكَ بِتِلْكَ فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ سَلَامٌ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ سَلَامٌ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ سَبْعُ كَلِمَاتٍ وَهِيَ تَحِيَّةُ الصَّلَاةِ
کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان
[ربنا ولک الحمد] کہنے کا بیان
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور ہمارے لیے طریقۂ زندگی بیان فرمایا اور ہمیں نماز سکھلائی، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفیں سیدھی کرو۔ پھر تم میں سے ایک شخص جماعت کروائے۔ پھر جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ (غیر المغضوب علیھم ولا الضالین) کہے تو تم آمین کہو۔ اللہ تعالیٰ (تمھاری دعا) قبول فرمائے گا۔ اور جب وہ اللہ اکبر کہہ کر رکوع کرے تو تم بھی اللہ اکبر کہہ کر رکوع کرو۔ امام تم سے پہلے رکوع کو جاتا ہے اور پہلے سر اٹھاتا ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو وہ سبقت اس تاخیر کے بدلے میں ہے۔ اور جب وہ [سمع اللہ لمن حمدہ] کے تو تم [اللھم! ربنا ولک الحمد] کہو۔ اللہ تعالیٰ تمھاری (حمد کو) ضرور سنے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس بندے کی بات سنتا ہے جو اس کی حمد کرتا ہے۔ پھر جب وہ اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرے تو تم بھی اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرو کیونکہ امام تم سے پہلے سجدے کو جاتا ہے اور پہلے سر اٹھاتا ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو یہ تاخیر اس سبقت کے بدلے میں ہے۔ اور جب وہ تشہد کے لیے بیٹھے تو تم میں سے ہر شخص کی پہلی بات یہ ہونی چاہیے: [التحیات الطیبات الصلوات للہ، سلام علیک ایھا النبی! و رحمۃ اللہ و برکاتہ، سلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین، اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھدان محمدا عبدہ و رسولہ] ’’تمام اچھے آداب اور تمام عبادات صرف اللہ کے لیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی، رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر بھی اللہ کی سلامتی ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ یہ سات جملے ہیں اور یہ نماز کے سلام و آداب ہیں۔‘‘
تشریح :
(۱) ’’آمین کہو‘‘ احناف کہتے ہیں آہستہ کہنی چاہیے کیونکہ یہ دعا ہے اور دعا خفیہ ہونی چاہیے۔ مگر تعجب ہے کہ اصل دعا سورۂ فاتحہ کا آخری حصہ ہے (آمین تو تتمہ ہے) وہ بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے مگر تتمۂ دعا آہستہ ہونا چاہیے۔ یہ نکتہ سمجھ میں نہیں آسکا۔ ظاہر بات ہے کہ دعا بلند آواز سے ہو تو آمین بھی بلند آواز سے ہونی چاہیے، اسی لیے جب نماز کے علاوہ دعا کی جاتی ہے تو آمین اونچی کہی جاتی ہے بلکہ زیادہ اونچی کہی جاتی ہے۔ کیا اس وقت وہ دعا نہیں ہوتی؟ صرف نماز ہی میں دعا ہوتی ہے؟ (۲) ’’بدلے میں ہے‘‘ یعنی وہ تم سے پہلے رکوع میں جاتا ہے، اٹھتا بھی اتنی دیر پہلے ہے اور تم جتنی دیر بعد رکوع میں جاتے ہو، اٹھتے بھی اتنی دیر بعد میں ہو، لہٰذا تمھارا رکوع اس کے رکوع کے برابر ہے۔ (۳) [التحیات الصلوات الطیبات] تحیۃ کے لغیو معنی ادب و سلام ہیں۔ کسی کو زندگی کی دعا دیتے وقت کہتے ہیں! [حیاک اللہ] ’’اللہ آپ کو تادیر زندہ و سلامت رکھے۔‘‘ علاوہ ازیں اس کے معنی عظمت و بزرگی، بادشاہت، دوام و بقا اور زندگی بھی کیے گئے ہیں، نیز [التحیات] سے قولی عبادات بھی مراد لی گئی ہیں۔ [الصلوات] صلاۃ کے معنی دعا یا نماز ہیں۔ اس سے یہاں مراد نماز پنجگانہ یا تمام نمازیں یا عبادات فعلیہ ہیں۔ [الطیبات] ہر اچھی بات اور عمدہ کلام کو کہتے ہیں، مثلاً: اللہ کی حمد و ثنا، ذکر الٰہی اور اقوال صالحہ وغیرہ۔ یہاں عام اعمال صالحہ اور مالی عبادات بھی مراد ہوسکتی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۴) آپ نے تشہد سے آگے ذکر نہیں فرمایا؎ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ بس اتنا ہی فرض یا واجب ہے۔ اس سے زائد درود شریف اور دعا واجب نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صلاۃ و سلام کو اکٹھا ذکر کیا ہے۔ مذکورہ تشہد میں سلام تو ہے، صلاۃ نہیں۔ مساوی حیثیت تقاضا کرتی ہے کہ اس کے بعد صلاۃ (درود) بھی واجب ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے محبت و شفقت اور شفاعت کبریٰ متقاضی ہیں کہ اور نہیں تو کم از کم اپنی نماز ہی میں امت رسولِ رؤف و رحیم کا حق درود کی صورت میں ادا کرے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔ (۵) ’’سات کلمات‘‘ اس طرح ہیں: (۱) التحیات (۲) الصلوات (۳) الطیبات (۳) سلام علی النبی (۵) سلام علی الصالحین (۶) شھادت توحید (۷) شہادت رسالت۔
(۱) ’’آمین کہو‘‘ احناف کہتے ہیں آہستہ کہنی چاہیے کیونکہ یہ دعا ہے اور دعا خفیہ ہونی چاہیے۔ مگر تعجب ہے کہ اصل دعا سورۂ فاتحہ کا آخری حصہ ہے (آمین تو تتمہ ہے) وہ بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے مگر تتمۂ دعا آہستہ ہونا چاہیے۔ یہ نکتہ سمجھ میں نہیں آسکا۔ ظاہر بات ہے کہ دعا بلند آواز سے ہو تو آمین بھی بلند آواز سے ہونی چاہیے، اسی لیے جب نماز کے علاوہ دعا کی جاتی ہے تو آمین اونچی کہی جاتی ہے بلکہ زیادہ اونچی کہی جاتی ہے۔ کیا اس وقت وہ دعا نہیں ہوتی؟ صرف نماز ہی میں دعا ہوتی ہے؟ (۲) ’’بدلے میں ہے‘‘ یعنی وہ تم سے پہلے رکوع میں جاتا ہے، اٹھتا بھی اتنی دیر پہلے ہے اور تم جتنی دیر بعد رکوع میں جاتے ہو، اٹھتے بھی اتنی دیر بعد میں ہو، لہٰذا تمھارا رکوع اس کے رکوع کے برابر ہے۔ (۳) [التحیات الصلوات الطیبات] تحیۃ کے لغیو معنی ادب و سلام ہیں۔ کسی کو زندگی کی دعا دیتے وقت کہتے ہیں! [حیاک اللہ] ’’اللہ آپ کو تادیر زندہ و سلامت رکھے۔‘‘ علاوہ ازیں اس کے معنی عظمت و بزرگی، بادشاہت، دوام و بقا اور زندگی بھی کیے گئے ہیں، نیز [التحیات] سے قولی عبادات بھی مراد لی گئی ہیں۔ [الصلوات] صلاۃ کے معنی دعا یا نماز ہیں۔ اس سے یہاں مراد نماز پنجگانہ یا تمام نمازیں یا عبادات فعلیہ ہیں۔ [الطیبات] ہر اچھی بات اور عمدہ کلام کو کہتے ہیں، مثلاً: اللہ کی حمد و ثنا، ذکر الٰہی اور اقوال صالحہ وغیرہ۔ یہاں عام اعمال صالحہ اور مالی عبادات بھی مراد ہوسکتی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۴) آپ نے تشہد سے آگے ذکر نہیں فرمایا؎ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ بس اتنا ہی فرض یا واجب ہے۔ اس سے زائد درود شریف اور دعا واجب نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صلاۃ و سلام کو اکٹھا ذکر کیا ہے۔ مذکورہ تشہد میں سلام تو ہے، صلاۃ نہیں۔ مساوی حیثیت تقاضا کرتی ہے کہ اس کے بعد صلاۃ (درود) بھی واجب ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے محبت و شفقت اور شفاعت کبریٰ متقاضی ہیں کہ اور نہیں تو کم از کم اپنی نماز ہی میں امت رسولِ رؤف و رحیم کا حق درود کی صورت میں ادا کرے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔ (۵) ’’سات کلمات‘‘ اس طرح ہیں: (۱) التحیات (۲) الصلوات (۳) الطیبات (۳) سلام علی النبی (۵) سلام علی الصالحین (۶) شھادت توحید (۷) شہادت رسالت۔