سنن النسائي - حدیث 1063

كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَابُ مَا يَقُولُ الْمَأْمُومُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ قَالَ حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى الزُّرَقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ قَالَ كُنَّا يَوْمًا نُصَلِّي وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرَّكْعَةِ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ قَالَ رَجُلٌ وَرَاءَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ الْمُتَكَلِّمُ آنِفًا فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ رَأَيْتُ بِضْعَةً وَثَلَاثِينَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَكْتُبُهَا أَوَّلًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1063

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان (رکوع سے اٹھ کر) مقتدی کیا کہے؟ حضرت رافعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ہم ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو کہا [سمع اللہ لمن حمدہ] آپ کے مقتدیوں میں سے ایک آدمی نے (ذرا بلند آواز سے) کہا: [ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ] ’’اے ہمارے رب! تیرے ہی لیے سب تعریفیں ہیں۔ بہت زیادہ، پاکیزہ اور بابرکت تعریفیں۔‘‘ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’کس شخص نے ابھی کچھ کلام کیا تھا؟‘‘ اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں نے تیس (۳۰) سے زائد فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کی طرف ایک دوسرے سے سبقت کر رہے تھے کہ کون انھیں پہلے لکھے۔‘‘ (اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرے۔)
تشریح : (۱) ان روایات میں مقتدی کے لیے [سمع اللہ لمن حمدہ] کہنے کی نفی ہے نہ ذکر و اثبات، اس لیے دیگر مفصل روایات کی طرف رجوع لازمی ہے، جیسا کہ حدیث: ۱۰۶۳ کے فوائد کے تحت گزر چکا ہے۔ (۲) بعض حضرات نے اس روایت سے ان کلمات کو بلند آواز سے کہنے پر استدلال کیا ہے مگر حیرانی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جلیل القدر صحابہ کے طرز عمل کو نظر انداز کر دیا جو آہستہ پڑھتے تھے اور ایک صحابی کے اتفاقی فعل سے استدلال کر لیا، حالانکہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ فعل اس صحابی سے بے اختیار یا اتفاقاً صادر ہوا تھا۔ اگر یہ عام معمول ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استفسار کیوں فرماتے؟ لٰذا یہ کلمات آہستہ ہی کہنے چاہئیں۔ (۱) ان روایات میں مقتدی کے لیے [سمع اللہ لمن حمدہ] کہنے کی نفی ہے نہ ذکر و اثبات، اس لیے دیگر مفصل روایات کی طرف رجوع لازمی ہے، جیسا کہ حدیث: ۱۰۶۳ کے فوائد کے تحت گزر چکا ہے۔ (۲) بعض حضرات نے اس روایت سے ان کلمات کو بلند آواز سے کہنے پر استدلال کیا ہے مگر حیرانی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جلیل القدر صحابہ کے طرز عمل کو نظر انداز کر دیا جو آہستہ پڑھتے تھے اور ایک صحابی کے اتفاقی فعل سے استدلال کر لیا، حالانکہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ فعل اس صحابی سے بے اختیار یا اتفاقاً صادر ہوا تھا۔ اگر یہ عام معمول ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استفسار کیوں فرماتے؟ لٰذا یہ کلمات آہستہ ہی کہنے چاہئیں۔