سنن النسائي - حدیث 1062

كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَابُ مَا يَقُولُ الْمَأْمُومُ صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ مِنْ فَرَسٍ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ يَعُودُونَهُ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1062

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان (رکوع سے اٹھ کر) مقتدی کیا کہے؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے دائیں پہلو پر گر پڑے تو صحابہ بیمار پرسی کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نماز کا وقت ہوگیا۔ جب آپ نے نماز پوری کرلی تو فرمایا: ’’امام اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب [سمع اللہ لمن حمدہ] کہے تو تم [ربنا ولک الحمد] کہو۔‘‘
تشریح : (۱) جمہور اہل علم نے اس سے استدلال کیا ہے کہ مقتدی صرف [ربنا ولک الحمد] کہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ مقتدی کو [سمع اللہ لمن حمدہ] بھی کہنا چاہیے تاکہ امام کی اقتدا ہو جائے، پھر [ربنا ولک الحمد] کہے۔ بظاہر یہی موقف راجح ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں [سمع اللہ لمن حمدہ] پڑھنے کی نفی نہیں۔ بلکہ اس میں تو [ربنا ولک الحمد] کے محل کا تعین ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مقتدی امام کے سمع اللہ کے ساتھ یا اس سے قبل یہ کلمات نہ کہے بلکہ اس کے بعد کہے۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ آیا مقتدی بھی [سمع اللہ لمن حمدہ] کے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے اس حدیث میں کوئی صراحت نہیں بلکہ مقتدی کے لیے ان کلمات کی مشروعیت دوسری احادیث کے عموم سے اخذ ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے [صلوا کما رایتمونی اصلی] ’’نماز اسی طریقے سے پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’مسیئی الصلاۃ‘‘ (نماز کو جلدی جلدی اور غلط طریقے سے پڑھنے والے) سے مخاطب ہوکر فرمایا: [انہ لا تتم صلاۃ لاحد من الناس حتی یتوضا ……… ثم یقول: سمع اللہ لمن حمدہ حتی یستوی قائما……] ’’حقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے کسی ایک کی بھی نماز اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرے……، پھر سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے، یہاں تک کہ برابر اور اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو جائے………‘‘ (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث: ۸۵۷، و صفۃ الصلاۃ، ص:۱۱۸) اس حدیث کی رو سے امام اور مقتدی وغیرہ سب ا کلمات کے کہنے کے مکلف ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۲) [ربنا ولک الحمد] بعض روایات میں بغیر واؤ کے آیا ہے۔ اور بعض میں ’’اللھم‘‘ اور ’’واو‘‘ کے اضافے کے ساتھ بھی، یعنی [ربنا لک الحمد، ربنا ولک الحمد] اور [اللھم ربنا و لک الحمد] تینوں کلمات میں سے کوئی بھی کہے جا سکتے ہیں سب جائز ہے بہتر ہے کہ ادائیگی میں تنوع ہو۔ مزید دیکھیے: (صفۃ صلاۃ، النبی، ص:۱۱۸ للالبانی) (۱) جمہور اہل علم نے اس سے استدلال کیا ہے کہ مقتدی صرف [ربنا ولک الحمد] کہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ مقتدی کو [سمع اللہ لمن حمدہ] بھی کہنا چاہیے تاکہ امام کی اقتدا ہو جائے، پھر [ربنا ولک الحمد] کہے۔ بظاہر یہی موقف راجح ہے کیونکہ مذکورہ حدیث میں [سمع اللہ لمن حمدہ] پڑھنے کی نفی نہیں۔ بلکہ اس میں تو [ربنا ولک الحمد] کے محل کا تعین ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مقتدی امام کے سمع اللہ کے ساتھ یا اس سے قبل یہ کلمات نہ کہے بلکہ اس کے بعد کہے۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ آیا مقتدی بھی [سمع اللہ لمن حمدہ] کے گا یا نہیں؟ اس حوالے سے اس حدیث میں کوئی صراحت نہیں بلکہ مقتدی کے لیے ان کلمات کی مشروعیت دوسری احادیث کے عموم سے اخذ ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے [صلوا کما رایتمونی اصلی] ’’نماز اسی طریقے سے پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’مسیئی الصلاۃ‘‘ (نماز کو جلدی جلدی اور غلط طریقے سے پڑھنے والے) سے مخاطب ہوکر فرمایا: [انہ لا تتم صلاۃ لاحد من الناس حتی یتوضا ……… ثم یقول: سمع اللہ لمن حمدہ حتی یستوی قائما……] ’’حقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے کسی ایک کی بھی نماز اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرے……، پھر سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے، یہاں تک کہ برابر اور اعتدال کے ساتھ کھڑا ہو جائے………‘‘ (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث: ۸۵۷، و صفۃ الصلاۃ، ص:۱۱۸) اس حدیث کی رو سے امام اور مقتدی وغیرہ سب ا کلمات کے کہنے کے مکلف ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۲) [ربنا ولک الحمد] بعض روایات میں بغیر واؤ کے آیا ہے۔ اور بعض میں ’’اللھم‘‘ اور ’’واو‘‘ کے اضافے کے ساتھ بھی، یعنی [ربنا لک الحمد، ربنا ولک الحمد] اور [اللھم ربنا و لک الحمد] تینوں کلمات میں سے کوئی بھی کہے جا سکتے ہیں سب جائز ہے بہتر ہے کہ ادائیگی میں تنوع ہو۔ مزید دیکھیے: (صفۃ صلاۃ، النبی، ص:۱۱۸ للالبانی)