سنن النسائي - حدیث 1054

كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ الذِّكْرِ فِي الرُّكُوعِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى الزُّرَقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمِّهِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ وَكَانَ بَدْرِيًّا قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمُقُهُ وَلَا يَشْعُرُ ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ قَالَ لَا أَدْرِي فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ قَالَ وَالَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ لَقَدْ جَهِدْتُ فَعَلِّمْنِي وَأَرِنِي قَالَ إِذَا أَرَدْتَ الصَّلَاةَ فَتَوَضَّأْ فَأَحْسِنْ الْوُضُوءَ ثُمَّ قُمْ فَاسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ ثُمَّ كَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ حَتَّى تَطْمَئِنَّ قَاعِدًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا فَإِذَا صَنَعْتَ ذَلِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ صَلَاتَكَ وَمَا انْتَقَصْتَ مِنْ ذَلِكَ فَإِنَّمَا تَنْقُصُهُ مِنْ صَلَاتِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1054

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان رکوع میں ذکر اور تسبیح چھوڑنے کی رخصت حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ، جوبدری صحابی ہیں، سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور اس نے نماز پڑھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے رہے جب کہ اسے علم نہ تھا۔ پھر وہ (نماز سے) فارغ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو سلام کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: ’’واپس جا، پھر نماز پڑھ۔ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ نہ معلوم دوسری یا تیسری دفعہ اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پر کتاب اتاری! میں نے تو پوری کوشش سے نماز پڑھی ہے۔ مجھے سکھلا دیجیے اور بتلا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’جب تو نماز کا ارادہ کرے تو وضو کر اور اچھی طرح وضو کر۔ پھر کھڑا ہو اور قبلے کی طرف منہ کر۔ پھر اللہ اکبر کہہ۔ پھر قرآن مجید پڑھ۔ پھر رکوع کو حتی کہ اطمینان سے رکوع کرلے۔ پھر سر اٹھا حتی کہ تو سیدھا کھڑا ہو جائے۔ پھر سجدہ کر حتی کہ اطمینان سے سجدہ کرلے۔ پھر سر اٹھا حتی کہ اطمینان سے بیٹھ جائے۔ پھر سجدہ کر حتی کہ اطمینان سے سجدہ کرلے۔ جب تو (ہر رکعت میں) یہ کرلے گا تو اپنی نماز ادا کرلے گا اور جس قدر تو اس میں کمی کرے گا، اپنی نماز میں کمی کرے گا۔
تشریح : (۱) مصنف رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رکوع اور سجدے میں تسبیحات فرض نہیں ہیں کیونکہ اس حدیث میں ان کا ذکر نہیں۔ اگر اتفاقاً یا نسیاناً رہ جائیں تو نماز ہو جائے گی، البتہ ……… چھوڑی جائیں لیکن اہل علم نے سجدے اور رکوع کی تسبیحات بربنائے دلیل واجب قرار دی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرح نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ (صحیح البخاري، الاذان، حدیث: ۶۳۱) نیز عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں۔ جس شخص سے تسبیحات اتفاقاً یا نسیانا رہ جائیں، وہ نماز کے آخری میں سجود سہو کرے گا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب السہو کا ابتدائیہ)۔ (۲) مذکورہ حدیث میں آپ نے فرائض اور واجبات بتلائگے ہیں یا وہ چیزیں ذکر کی ہیں جو وہ شخص صحیح ادا نہیں کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کی نماز نہ ہوتی تھی۔ اس روایت کی رو سے بھی رکوع، سجدے، قومے اور جلسے میں اطمینان ضروری ہے۔ ائمہ احناف میں سے امام ابو یوسف رحمہ اللہ اس کے قائل ہیں، دیگر احناف اطمینان کو ضروری نہیں سمجھتے جبکہ حدیث ان کے موقف کا رد کرتی ہے۔ (۳) اس حدیث کے دوسرے طریق میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا صریح حکم ہے، لہٰذا یہاں قرآن مجید سے مراد سورۂ فاتحہ ہی ہے۔ دیکھیے: (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث: ۸۵۹) (۴) ’’نماز میں کمی کرے گا۔‘‘ یہ الفاظ، ابتدائی الفاظ ’’تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ کے مقابلے میں نرم ہیں مگر اکثر چیزوں کا ترک نماز نہ ہونے کو مستلزم ہے۔ مزید فوائد و مسائل کے لیے دیکھیے: (حدیث: ۸۸۵) (۱) مصنف رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رکوع اور سجدے میں تسبیحات فرض نہیں ہیں کیونکہ اس حدیث میں ان کا ذکر نہیں۔ اگر اتفاقاً یا نسیاناً رہ جائیں تو نماز ہو جائے گی، البتہ ……… چھوڑی جائیں لیکن اہل علم نے سجدے اور رکوع کی تسبیحات بربنائے دلیل واجب قرار دی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرح نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ (صحیح البخاري، الاذان، حدیث: ۶۳۱) نیز عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں۔ جس شخص سے تسبیحات اتفاقاً یا نسیانا رہ جائیں، وہ نماز کے آخری میں سجود سہو کرے گا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب السہو کا ابتدائیہ)۔ (۲) مذکورہ حدیث میں آپ نے فرائض اور واجبات بتلائگے ہیں یا وہ چیزیں ذکر کی ہیں جو وہ شخص صحیح ادا نہیں کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کی نماز نہ ہوتی تھی۔ اس روایت کی رو سے بھی رکوع، سجدے، قومے اور جلسے میں اطمینان ضروری ہے۔ ائمہ احناف میں سے امام ابو یوسف رحمہ اللہ اس کے قائل ہیں، دیگر احناف اطمینان کو ضروری نہیں سمجھتے جبکہ حدیث ان کے موقف کا رد کرتی ہے۔ (۳) اس حدیث کے دوسرے طریق میں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا صریح حکم ہے، لہٰذا یہاں قرآن مجید سے مراد سورۂ فاتحہ ہی ہے۔ دیکھیے: (سنن ابی داود، الصلاۃ، حدیث: ۸۵۹) (۴) ’’نماز میں کمی کرے گا۔‘‘ یہ الفاظ، ابتدائی الفاظ ’’تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ کے مقابلے میں نرم ہیں مگر اکثر چیزوں کا ترک نماز نہ ہونے کو مستلزم ہے۔ مزید فوائد و مسائل کے لیے دیکھیے: (حدیث: ۸۸۵)