سنن النسائي - حدیث 1046

كِتَابُ التَّطْبِيقِ تَعْظِيمُ الرَّبِّ فِي الرُّكُوعِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سُحَيْمٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَشَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السِّتَارَةَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهُ ثُمَّ قَالَ أَلَا إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا فَأَمَّا الرُّكُوعُ فَعَظِّمُوا فِيهِ الرَّبَّ وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ قَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1046

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان رکوع میں رب تعالیٰ کی عظمت بیان کرنا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (دروازے کا) پردہ ہٹایا جب کہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں باندھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’اے لوگو! نبوت سے مخصوص خوش خبری دینے والی چیزوں میں سے اب نیک اور سچے خواب ہی رہ گئے ہیں جو کوئی مسلمان خود دیکھ لے یا اس کے لیے کسی اور کو نظر آئے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’خبردار! مجھے رکوع یا سجدے کی حالت میں قرآن مجید پڑھنے سے روکا گیا ہے، چنانچہ رکوع میں رب تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں دعا مانگنے کی کوشش کرو (پورا زور لگا دو کیونکہ) سجدے میں دعا قبولیت کے زیادہ لائق ہے۔‘‘
تشریح : 1۔یہ ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری دن کے ہیں۔ (۲) نبی کو تو خوش خبری وحی کے ذریعے سے بھی دی جا سکتی ہے مگر امتیوں کو صرف خواب یا کبھی کبھار الہام کے ذریعے سے ہی خوش خبری دی جا سکتی ہے۔ چونکہ آپ کی وفات قریب تھی، وحی کا انقطاع ہونے ہی والا تھا، اس لیے یوں ارشاد فرمایا۔ (۳) رکوع میں عظمت کا بیان اور تسبیح زیادہ مناسب ہیں، لہٰذا ان کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔ سجدے میں دعا کا موقع ہے کیونکہ یہ انسان کے تذلل و خشوع اور عاجزی کی انتہائی صورت ہے۔ نماز کے ارکان میں سے مقصود اعظم ے، لہٰذا سجدے میں پوری کوشش اور تندہی سے خوب دعا کی جائے۔ ہر مقالے را مقام دیگر است۔ اگرچہ سجدہ تسبیح کا بھی محل ہے۔ 1۔یہ ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری دن کے ہیں۔ (۲) نبی کو تو خوش خبری وحی کے ذریعے سے بھی دی جا سکتی ہے مگر امتیوں کو صرف خواب یا کبھی کبھار الہام کے ذریعے سے ہی خوش خبری دی جا سکتی ہے۔ چونکہ آپ کی وفات قریب تھی، وحی کا انقطاع ہونے ہی والا تھا، اس لیے یوں ارشاد فرمایا۔ (۳) رکوع میں عظمت کا بیان اور تسبیح زیادہ مناسب ہیں، لہٰذا ان کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔ سجدے میں دعا کا موقع ہے کیونکہ یہ انسان کے تذلل و خشوع اور عاجزی کی انتہائی صورت ہے۔ نماز کے ارکان میں سے مقصود اعظم ے، لہٰذا سجدے میں پوری کوشش اور تندہی سے خوب دعا کی جائے۔ ہر مقالے را مقام دیگر است۔ اگرچہ سجدہ تسبیح کا بھی محل ہے۔