سنن النسائي - حدیث 103

صِفَةُ الْوُضُوءِ بَاب مَسْحِ الْأُذُنَيْنِ مَعَ الرَّأْسِ وَمَا يُسْتَدَلُّ بِهِ عَلَى أَنَّهُمَا مِنْ الرَّأْسِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ وَعُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ فَتَمَضْمَضَ خَرَجَتْ الْخَطَايَا مِنْ فِيهِ فَإِذَا اسْتَنْثَرَ خَرَجَتْ الْخَطَايَا مِنْ أَنْفِهِ فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجْتِ الْخَطَايَا مِنْ وَجْهِهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَشْفَارِ عَيْنَيْهِ فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ الْخَطَايَا مِنْ يَدَيْهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ يَدَيْهِ فَإِذَا مَسَحَ بِرَأْسِهِ خَرَجَتْ الْخَطَايَا مِنْ رَأْسِهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ أُذُنَيْهِ فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَجَتْ الْخَطَايَا مِنْ رِجْلَيْهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ رِجْلَيْهِ ثُمَّ كَانَ مَشْيُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَصَلَاتُهُ نَافِلَةً لَهُ قَالَ قُتَيْبَةُ عَنْ الصُّنَابِحِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 103

کتاب: وضو کا طریقہ کانوں کا مسح سر کے ساتھ کرنا اور اس بات کی دلیل کہ کان سر کا حکم رکھتے ہیں حضرت عبد اللہ صنابحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب مومن بندہ وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کی غلطیاں اس کے منہ سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ ناک جھاڑتا ہے تو ناک کی غلطیاں ناک سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ منہ دھوتا ہے تو چہرے کی غلطیاں چہرے سے حتی کہ آنکھوں کی پلکوں سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں کی غلطیاں اس کے ہاتھوں سے حتی کہ ہاتھوں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے سر کی غلطیاں سر سے حتی کہ اس کے کانوں سے نکل جاتی ہیں، پھر جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں کی غلطیاں پاؤں سے حتی کہ پاؤں کے ناخنوں کے نیچے سے نکل جاتی ہیں، پھر اس کا مسجد کی طرف چلنا اور اس کی نماز (ان دو کاموں کا ثواب) اس کے لیے زائد ہوتے ہیں۔ فتیبہ نے یوں بیان کیا (عن الصنابحی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال) یعنی صنابحی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
تشریح : (۱) امام صاحب کا آخری جملے [قال فتیبۃ عن……] سے مقصود یہ ہے کہ اس روایت میں میرے دو اساتذہ میں سے ایک، یعنی عتبہ بن عبداللہ نے (ان رسول اللہ) کہا جب کہ دوسرے استاذ قتیبہ نے (أن النبی ﷺ) کہا، اگرچہ اس لفظی اخلاف کا سند یا متن حدیث پر ذرہ بھر بھی اثر نہیں پڑتا مگر محدثین کا یہ کمال حفظ و ضبط ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے معمولی سے اختلاف کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ اس سے ان کی دیانت داری کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ رحمھم اللہ رحمۃ واسعۃ۔ (۲) ’’غلطیاں نکل جاتی ہیں۔‘‘ اس سے مراد غلطیوں کے اثرات ہیں کیونکہ گناہوں کے اثرات متعلقہ اعضاء میں جاگزین ہو جاتے ہیں۔ وضو کے ساتھ جس طرح جسم ظاہری نجاست اور میل کچیل سے پاک ہو جاتا ہے، اسی طرح اعضائے وضو گناہوں کے اثرات سے پاجک ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً جسم ظاہری اور معنوی طور پر، یعنی میل کچیل اور گناہوں دونوں سے صاف ہو جاتا ہے۔ (۳) اس حدیث میں سر اور کانوں کا مسح اکٹھا ذکر کیا گیا ہے۔ حقیقتاً بھی کانوں کا مسح الگ نہیں ہوتا بلکہ سر والے پانی ہی سے کانوں کا مسح کیا جاتا ہے۔ اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کانوں کے لیے الگ پانی لینے کے قائل ہیں مگر یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ گویا کان سر ہی میں داخل ہیں۔ اس مفہوم کی ایک صریح روایت بھی موجود ہے۔ [الاذنان من الرأس] ’’کان سر میں شامل ہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۱۳۴، و سنن ابن ماجہ، الطھارۃ، حدیث: ۴۴۳) بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کانوں کا سامنے والا حصہ منہ میں داخل ہے، لہٰذا اسے منہ کے ساتھ دھویا جائے اور پچھلا حصہ سر میں داخل ہے، لہٰذا اس کا سر کے ساتھ مسح کیا جائے۔ اسی طرح بعض لوگ کانوں کو چہرے کی طرح دھونے کے قائل ہیں مگر ان کی بنیاد قیاس پر ہے۔ صحیح و صریح احادیث کے مقابلے میں قیاس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ مذموم ہے۔ (۴) جس دلیل کی طرف امام صاحب نے باب میں اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ لفظ ہیں: [خرجت الخطایا من رأسہ حتی تخرج من أذنیہ] انھی الفاظ میں سر کی غلطیوں کا کانوں سے نکلنا بتلایا گیا ہے۔ معلوم ہوا کانوں کا حکم سر والا ہے، یعنی مسح۔ (۵) [نافلۃ] ’’زائد‘‘ یعنی رفع درجات کا سبب بن جائیں گے۔ (۱) امام صاحب کا آخری جملے [قال فتیبۃ عن……] سے مقصود یہ ہے کہ اس روایت میں میرے دو اساتذہ میں سے ایک، یعنی عتبہ بن عبداللہ نے (ان رسول اللہ) کہا جب کہ دوسرے استاذ قتیبہ نے (أن النبی ﷺ) کہا، اگرچہ اس لفظی اخلاف کا سند یا متن حدیث پر ذرہ بھر بھی اثر نہیں پڑتا مگر محدثین کا یہ کمال حفظ و ضبط ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے معمولی سے اختلاف کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ اس سے ان کی دیانت داری کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ رحمھم اللہ رحمۃ واسعۃ۔ (۲) ’’غلطیاں نکل جاتی ہیں۔‘‘ اس سے مراد غلطیوں کے اثرات ہیں کیونکہ گناہوں کے اثرات متعلقہ اعضاء میں جاگزین ہو جاتے ہیں۔ وضو کے ساتھ جس طرح جسم ظاہری نجاست اور میل کچیل سے پاک ہو جاتا ہے، اسی طرح اعضائے وضو گناہوں کے اثرات سے پاجک ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً جسم ظاہری اور معنوی طور پر، یعنی میل کچیل اور گناہوں دونوں سے صاف ہو جاتا ہے۔ (۳) اس حدیث میں سر اور کانوں کا مسح اکٹھا ذکر کیا گیا ہے۔ حقیقتاً بھی کانوں کا مسح الگ نہیں ہوتا بلکہ سر والے پانی ہی سے کانوں کا مسح کیا جاتا ہے۔ اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کانوں کے لیے الگ پانی لینے کے قائل ہیں مگر یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ گویا کان سر ہی میں داخل ہیں۔ اس مفہوم کی ایک صریح روایت بھی موجود ہے۔ [الاذنان من الرأس] ’’کان سر میں شامل ہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۱۳۴، و سنن ابن ماجہ، الطھارۃ، حدیث: ۴۴۳) بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کانوں کا سامنے والا حصہ منہ میں داخل ہے، لہٰذا اسے منہ کے ساتھ دھویا جائے اور پچھلا حصہ سر میں داخل ہے، لہٰذا اس کا سر کے ساتھ مسح کیا جائے۔ اسی طرح بعض لوگ کانوں کو چہرے کی طرح دھونے کے قائل ہیں مگر ان کی بنیاد قیاس پر ہے۔ صحیح و صریح احادیث کے مقابلے میں قیاس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ مذموم ہے۔ (۴) جس دلیل کی طرف امام صاحب نے باب میں اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ لفظ ہیں: [خرجت الخطایا من رأسہ حتی تخرج من أذنیہ] انھی الفاظ میں سر کی غلطیوں کا کانوں سے نکلنا بتلایا گیا ہے۔ معلوم ہوا کانوں کا حکم سر والا ہے، یعنی مسح۔ (۵) [نافلۃ] ’’زائد‘‘ یعنی رفع درجات کا سبب بن جائیں گے۔