سنن النسائي - حدیث 1027

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ تَرْكُ ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1027

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: رکوع کا رفع الیدین نہ کرنے کا ذکر حضرت علقمہ سے روایت ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں نہ بتاؤں؟ پھر آپ اٹھے (نماز شروع کی) پہلی دفعہ رفع الیدین کیا، پھر نہ کیا۔
تشریح : یہ روایت رکوع کے رفع الیدین کے نسخ کی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے، مگر یہاں چند باتیں قابل غور ہیں: (۱) اس روایت میں رکوع کے رفع الیدین کا ذکر ہی نہیں تو مسنوخ کیسے؟ اگر کہا جائے: ’’پھر نہ کیا‘‘ سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے تو عرض ہے کہ قنوت وتر کا رفع الیدین اس سے کیسے بچ گیا؟ تکبیرات عیدین کیوں اس کی زد میں نہ آئیں؟ (۲) اس روایت کی اسنادی حیثیت اتنی قوی نہیں جتنی رفع الیدین کے ثبوت کی احادیث کی ہے۔ اس حدیث کو اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے جب کہ رفع الیدین کرنے کی بخاری الور مسلم کی مستند روایات ہیں۔ پھر وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ کیا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک ضعیف روایت لے کر کثیر صحابہ کی روایات چھوڑنا کسی بھی لحاظ سے مناسب ہے؟ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۵۲-۵۰/۱۳) (۳) کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے رفع الیدین کرنے کا ثبوت ملتا ہے جبکہ ان سے اس کی نفی منقول ہے۔ کس کو ترجیح ہونی چاہیے؟ یقیناً اصولی طور پر اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ یا ممکن ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں جس طرح وہ چند باتیں اور بھول گئے تھے، مثلاً: معوذتین قرآن کا جز ہیں یا نہیں؟ اور امام کے ساتھ دو مقتدی ہوں تو کیسے کھڑے ہوں؟ رکوع کے دوران میں ہاتھ کہاں اور کیسے رکھے جائیں؟ اور مسائل میں احناف بھی ان کی بات نہیں مانتے۔ تو کیا مناسب نہیں کہ رفع الیدین کو بھی ان مسائل میں شامل کر لیا جائے کیونکہ ان کا موقف کثیر صحابہ کے موافق نہیں۔ (۴) اس حدیث کی مناسب تاویل بھی ہوسکتی ہے، مثلاً: پہلی رکعت کے شروع میں رفع الیدین کیا۔ دوسری رکعت کے شروع میں نہیں کیا۔ عید کی طرح بار بار نہیں کیا وغیرہ، تاکہ یہ روایت اصح اور کثیر روایات کے مطابق ہوسکے۔ (۵) اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح بھی مانا جائے، تاویل بھی نہ کی جائے اور عمل بھی کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ کبھی کبھار رفع الیدین نہ بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ معمول رفع الیدین ہی کا ہوتا کہ سب حدثیوں پر عمل ہو۔ اس روایت سے نسخ تو قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔ مندرجہ بالا معقول باتوں کو چھوڑ کر نسخ ہی باور کرانے پر تلے رہنا، جب کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی نسخ کی تردید کی ہے، یقیناً انتہائی نامعقولیت ہے جس کا کوئی جواز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ روایت رکوع کے رفع الیدین کے نسخ کی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے، مگر یہاں چند باتیں قابل غور ہیں: (۱) اس روایت میں رکوع کے رفع الیدین کا ذکر ہی نہیں تو مسنوخ کیسے؟ اگر کہا جائے: ’’پھر نہ کیا‘‘ سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے تو عرض ہے کہ قنوت وتر کا رفع الیدین اس سے کیسے بچ گیا؟ تکبیرات عیدین کیوں اس کی زد میں نہ آئیں؟ (۲) اس روایت کی اسنادی حیثیت اتنی قوی نہیں جتنی رفع الیدین کے ثبوت کی احادیث کی ہے۔ اس حدیث کو اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے جب کہ رفع الیدین کرنے کی بخاری الور مسلم کی مستند روایات ہیں۔ پھر وہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔ کیا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک ضعیف روایت لے کر کثیر صحابہ کی روایات چھوڑنا کسی بھی لحاظ سے مناسب ہے؟ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۵۲-۵۰/۱۳) (۳) کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے رفع الیدین کرنے کا ثبوت ملتا ہے جبکہ ان سے اس کی نفی منقول ہے۔ کس کو ترجیح ہونی چاہیے؟ یقیناً اصولی طور پر اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ یا ممکن ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں جس طرح وہ چند باتیں اور بھول گئے تھے، مثلاً: معوذتین قرآن کا جز ہیں یا نہیں؟ اور امام کے ساتھ دو مقتدی ہوں تو کیسے کھڑے ہوں؟ رکوع کے دوران میں ہاتھ کہاں اور کیسے رکھے جائیں؟ اور مسائل میں احناف بھی ان کی بات نہیں مانتے۔ تو کیا مناسب نہیں کہ رفع الیدین کو بھی ان مسائل میں شامل کر لیا جائے کیونکہ ان کا موقف کثیر صحابہ کے موافق نہیں۔ (۴) اس حدیث کی مناسب تاویل بھی ہوسکتی ہے، مثلاً: پہلی رکعت کے شروع میں رفع الیدین کیا۔ دوسری رکعت کے شروع میں نہیں کیا۔ عید کی طرح بار بار نہیں کیا وغیرہ، تاکہ یہ روایت اصح اور کثیر روایات کے مطابق ہوسکے۔ (۵) اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح بھی مانا جائے، تاویل بھی نہ کی جائے اور عمل بھی کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ کبھی کبھار رفع الیدین نہ بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ معمول رفع الیدین ہی کا ہوتا کہ سب حدثیوں پر عمل ہو۔ اس روایت سے نسخ تو قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔ مندرجہ بالا معقول باتوں کو چھوڑ کر نسخ ہی باور کرانے پر تلے رہنا، جب کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی نسخ کی تردید کی ہے، یقیناً انتہائی نامعقولیت ہے جس کا کوئی جواز نہیں کیا جا سکتا۔