سنن النسائي - حدیث 1020

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ تَزْيِينُ الْقُرْآنِ بِالصَّوْتِ صحيح أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ قِرَاءَةَ أَبِي مُوسَى فَقَالَ لَقَدْ أُوتِيَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1020

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: قرآن کو خوب صورت اور مزین آواز سے پڑھنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی قراءت سنی تو فرمایا: ’’اسے تو داود علیہ السلام کی بانسریوں میں سے ایک بانسری دی گئی ہے۔‘‘
تشریح : (۱)حضرت داود علیہ السلام آواز و قراءت کی خوب صورتی میں ضرب المثل بن چکے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کی قراءت کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی قراءت کا ذکر ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو خوب صورت آواز کو حضرت داود علیہ السلام کی آوازکے ساتھ تشبیہ دی۔ اور اس کے لیے (مزمار) کا لفظ استعمال فرمایا۔ [مزمار] کے معنی بانسری ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بانسری کے ساتھ پڑھتے تھے بلکہ یہ تو صرف تشبیہ ہے ک آواز اس طرح پرسوز اور پرکشش تھی جیسے بانسری ہو۔ (۲) اچھی آواز کی تعریف کرنا درست ہے۔ (۳) اچھی آواز والے قاری کی قراءت سننا مستحسن امر ہے۔ (۱)حضرت داود علیہ السلام آواز و قراءت کی خوب صورتی میں ضرب المثل بن چکے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کی قراءت کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی قراءت کا ذکر ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو خوب صورت آواز کو حضرت داود علیہ السلام کی آوازکے ساتھ تشبیہ دی۔ اور اس کے لیے (مزمار) کا لفظ استعمال فرمایا۔ [مزمار] کے معنی بانسری ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بانسری کے ساتھ پڑھتے تھے بلکہ یہ تو صرف تشبیہ ہے ک آواز اس طرح پرسوز اور پرکشش تھی جیسے بانسری ہو۔ (۲) اچھی آواز کی تعریف کرنا درست ہے۔ (۳) اچھی آواز والے قاری کی قراءت سننا مستحسن امر ہے۔