كِتَابُ الِافْتِتَاحِ قِرَاءَةُ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ إِنِّي لَأَعْرِفُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ يَقْرَأُ بِهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ سُورَةً فِي عَشْرِ رَكَعَاتٍ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلْقَمَةَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا عَلْقَمَةُ فَسَأَلْنَاهُ فَأَخْبَرَنَا بِهِنَّ
کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل
باب: ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک میں ان ملتی جلتی بیس سورتوں کو بخوبی جانتا ہوں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس رکعات میں پڑھتے تھے۔ پر وہ علقمہ کا ہاتھ پکڑ کر اندر چلے گئے۔ پھر علقمہ باہر آئے تو ہم نے ان سے ان سورتوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ہمیں ان کی تفصیل بتائی۔
تشریح :
(۱) ایک رکعت میں دو سورتیں ہوں یا ایک نماز کی دو رکعتوں میں دو سورتیں، ان میں معنوی مناسبت بھی ہونی چاہیے۔ نظائر (ملتی جلتی سورتیں) سے مراد بھی یہی مناسبت ہے۔ بعض لوگوں نے طول میں مناسبت مراد لی ہے مگر وہ درست نہیں جیسا کہ ان سورتوں کی تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے، جیسے ’’اقتربت‘‘ اور ’’الحاقۃ‘‘ ایک رکعت میں، اسی طرح ’’اذا الشمس کورت‘‘ اور ’’خان‘‘ ایک رکعت میں۔ (۲) قرآن مجید کی قراءت کرتے ہئے سورتوں کی ترتیب ملحوظ رکھنا ضروری نہیں ہے، یعنی اگر کوئی پہلے سورۂ کہف پھر سورۂ بقرہ کی قراءت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ ترتیب سے پڑھنا بہتر اور افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیشتر عمل اسی پر تھا۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے حضرت عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنھم کے قول کی موافقت ہوگئی کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز وتر کے علاوہ دس رکعات تھی۔ (۴) قرآن مجید کی تلاوت معانی پر تدبر و تفکر کرکے کرنی چاہیے۔ بغیر سوچے سمجھے بہت زیادہ تیز پڑھنا مناسب نہیں۔ (۵) بسا اوقات دوسری رکعت پہلی سے لمبی پڑھنا جائز ہے کیونکہ ان سورتوں میں سے بعض بعد والی سورتیں پہلی سورتوں سے زیادہ لمبی ہیں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ میں پہلی رکعت میں سورۂ اعلی اور دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ پڑھتے تھے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ سورۂ غاشیہ، سورۂ اعلیٰ سے لمبی ہے۔
(۱) ایک رکعت میں دو سورتیں ہوں یا ایک نماز کی دو رکعتوں میں دو سورتیں، ان میں معنوی مناسبت بھی ہونی چاہیے۔ نظائر (ملتی جلتی سورتیں) سے مراد بھی یہی مناسبت ہے۔ بعض لوگوں نے طول میں مناسبت مراد لی ہے مگر وہ درست نہیں جیسا کہ ان سورتوں کی تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے، جیسے ’’اقتربت‘‘ اور ’’الحاقۃ‘‘ ایک رکعت میں، اسی طرح ’’اذا الشمس کورت‘‘ اور ’’خان‘‘ ایک رکعت میں۔ (۲) قرآن مجید کی قراءت کرتے ہئے سورتوں کی ترتیب ملحوظ رکھنا ضروری نہیں ہے، یعنی اگر کوئی پہلے سورۂ کہف پھر سورۂ بقرہ کی قراءت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ ترتیب سے پڑھنا بہتر اور افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیشتر عمل اسی پر تھا۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے حضرت عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنھم کے قول کی موافقت ہوگئی کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز وتر کے علاوہ دس رکعات تھی۔ (۴) قرآن مجید کی تلاوت معانی پر تدبر و تفکر کرکے کرنی چاہیے۔ بغیر سوچے سمجھے بہت زیادہ تیز پڑھنا مناسب نہیں۔ (۵) بسا اوقات دوسری رکعت پہلی سے لمبی پڑھنا جائز ہے کیونکہ ان سورتوں میں سے بعض بعد والی سورتیں پہلی سورتوں سے زیادہ لمبی ہیں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ میں پہلی رکعت میں سورۂ اعلی اور دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ پڑھتے تھے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ سورۂ غاشیہ، سورۂ اعلیٰ سے لمبی ہے۔