سنن النسائي - حدیث 1003

كِتَابُ الِافْتِتَاحِ الرُّكُودُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عَوْنٍ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ قَالَ عُمَرُ لِسَعْدٍ قَدْ شَكَاكَ النَّاسُ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ سَعْدٌ أَتَّئِدُ فِي الْأُولَيَيْنِ وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ وَمَا آلُو مَا اقْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1003

کتاب: نماز کے ابتدائی احکام و مسائل باب: پہلی دو رکعتوں میں ٹھہرنا (انھیں لمبا کرنا) حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: تحقیق لوگوں (اہل کوفہ) نے تمھاری ہر چیز کی شکایت کی ہے حتی کہ نماز کی بھی۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پہلی دو رکعتوں میں ٹھہرتا (لمبی قراءت کرتا) ہوں اور آخری دو کو ہلکا پڑھتا ہوں۔ اور میں اس نماز سے ذرہ بھر کوتاہی نہیں کرتا جو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں پڑھی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم سے یہی امید ہے۔
تشریح : (۱) حضرت عد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام صابی تھے۔ عشرۂ مبشرہ (وہ دس آدمی جنھیں زبان رسالت سے نام لے کر جنت کی خوش خبری ملی) میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیال میں سے تھے جنگ قادسیہ کے فاتح تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں کوفے کا گورنر مقرر کیا تھا۔ مندرجہ بالا شکایت پر معزول کر دیا مگر اپنے بعد جن چھ صحابہ کو خلافت کے لیے نامزد کیا، ان میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بھی شامل فرمایا۔ اور وضاحت فرمائی کہ ’’میں نے انھیں کسی نقص کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا بلکہ وہ انتظامی مسئلہ تھا، لہٰذا یہ خلافت کے اہل ہیں۔‘‘ رضی اللہ عنہ وأرضاہ۔ (۲) اکثر اہل کوفہ بدباطن لوگ تھے۔ جھوٹی شکایات کے عادی تھے۔ گورنروں تک کو تنگ کیا کرتے تھے۔ کسی کو ٹکنے نہ دیتے تھے۔ حجاج نے انھیں خوب کس کے رکھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بابت ان کی مندرجہ بالا شکایات بھی غلط ثابت ہوئیں۔ پھر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں معزول کر دیا کہ جب حاکم اور محکوم میں غلط فہمیاں اس حد تک ہو جائیں تو امور حکومت خوش اسلوبی سے نہیں چلائے جاسکتے۔ (۳) پہلی دو رکعتیں لمبی کرنا مستحب ہے۔ (۴) صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ ان کی نماز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے عین مطابق ہوتی تھی۔ (۵) اگر حکومت کو کسی گورنر یا عہدیدار کی شکایت پہنچے جو لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار ہو تو حاکم وقت مصلحت کے پیش نظر اسے معزول کرسکتا ہے اگرچہ اس کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ بھی ہو۔ (۶) معزول ہونے والا اپنے متعلق شکایات کے بارے میں پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔ (۷) کسی کی تعریف منہ پر کی جا سکتی ہے جب کہ اس سے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (۸) حکمران کو اپنے ماتحتوں کے متعلق اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے۔ (۱) حضرت عد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام صابی تھے۔ عشرۂ مبشرہ (وہ دس آدمی جنھیں زبان رسالت سے نام لے کر جنت کی خوش خبری ملی) میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیال میں سے تھے جنگ قادسیہ کے فاتح تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں کوفے کا گورنر مقرر کیا تھا۔ مندرجہ بالا شکایت پر معزول کر دیا مگر اپنے بعد جن چھ صحابہ کو خلافت کے لیے نامزد کیا، ان میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بھی شامل فرمایا۔ اور وضاحت فرمائی کہ ’’میں نے انھیں کسی نقص کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا بلکہ وہ انتظامی مسئلہ تھا، لہٰذا یہ خلافت کے اہل ہیں۔‘‘ رضی اللہ عنہ وأرضاہ۔ (۲) اکثر اہل کوفہ بدباطن لوگ تھے۔ جھوٹی شکایات کے عادی تھے۔ گورنروں تک کو تنگ کیا کرتے تھے۔ کسی کو ٹکنے نہ دیتے تھے۔ حجاج نے انھیں خوب کس کے رکھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بابت ان کی مندرجہ بالا شکایات بھی غلط ثابت ہوئیں۔ پھر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں معزول کر دیا کہ جب حاکم اور محکوم میں غلط فہمیاں اس حد تک ہو جائیں تو امور حکومت خوش اسلوبی سے نہیں چلائے جاسکتے۔ (۳) پہلی دو رکعتیں لمبی کرنا مستحب ہے۔ (۴) صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ ان کی نماز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے عین مطابق ہوتی تھی۔ (۵) اگر حکومت کو کسی گورنر یا عہدیدار کی شکایت پہنچے جو لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار ہو تو حاکم وقت مصلحت کے پیش نظر اسے معزول کرسکتا ہے اگرچہ اس کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ بھی ہو۔ (۶) معزول ہونے والا اپنے متعلق شکایات کے بارے میں پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔ (۷) کسی کی تعریف منہ پر کی جا سکتی ہے جب کہ اس سے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (۸) حکمران کو اپنے ماتحتوں کے متعلق اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے۔