سنن النسائي - حدیث 100

صِفَةُ الْوُضُوءِ بَاب مَسْحِ الْمَرْأَةِ رَأْسَهَا صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ جُعَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي ذُنَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ سَالِمٌ سَبَلَانُ قَالَ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَعْجِبُ بِأَمَانَتِهِ وَتَسْتَأْجِرُهُ فَأَرَتْنِي كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ فَتَمَضْمَضَتْ وَاسْتَنْثَرَتْ ثَلَاثًا وَغَسَلَتْ وَجْهَهَا ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَتْ يَدَهَا الْيُمْنَى ثَلَاثًا وَالْيُسْرَى ثَلَاثًا وَوَضَعَتْ يَدَهَا فِي مُقَدَّمِ رَأْسِهَا ثُمَّ مَسَحَتْ رَأْسَهَا مَسْحَةً وَاحِدَةً إِلَى مُؤَخِّرِهِ ثُمَّ أَمَرَّتْ يَدَهَا بِأُذُنَيْهَا ثُمَّ مَرَّتْ عَلَى الْخَدَّيْنِ قَالَ سَالِمٌ كُنْتُ آتِيهَا مُكَاتَبًا مَا تَخْتَفِي مِنِّي فَتَجْلِسُ بَيْنَ يَدَيَّ وَتَتَحَدَّثُ مَعِي حَتَّى جِئْتُهَا ذَاتَ يَوْمٍ فَقُلْتُ ادْعِي لِي بِالْبَرَكَةِ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ وَمَا ذَاكَ قُلْتُ أَعْتَقَنِي اللَّهُ قَالَتْ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ وَأَرْخَتْ الْحِجَابَ دُونِي فَلَمْ أَرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 100

کتاب: وضو کا طریقہ عورت بھی اپنے پورے سر کا مسح کرے حضرت ابو عبداللہ سالم سبلان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی امانت داری سے بہت خوش تھیں اور ان سے اجرت پر کام کروایا کرتی تھیں، وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دکھلایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیسے وضو فرمایا کرتے تھے۔ انھوں نے تین دفعہ کلی کی اور ناک جھاڑا اور اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا، پھر اپنا دایاں اور بایاں ہاتھ (بازو) تین تین دفعہ دھویا، پھر حضرت عائشہ نے اپنا ہاتھ سر کے اگلے حصہ پر رکھا اور پیچھے تک پورے سر کا ایک دفعہ مسح کیا، پھر انھوں نے اپنے ہاتھ اپنے کانوں پر پھیرے، پھر رخساروں پر پھیرے۔ سالم نے کہا: میں جب مکاتب تھا تو آپ کے پاس آیا کرتا تھا، وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں بلکہ میرے سامنے بیٹھ کر مجھ سے باتیں کیا کرتی تھیں حتی کہ میں ایک دن ان کے پاس آیا اور میں نے کہا: اے ام المومنین! میرے لیے برکت کی دعا فرمائیے۔ وہ کہنے لگیں: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے آزاد فرما دیا ہے۔ وہ کہنے لگیں: اللہ تعالیٰ تمھارے لیے برکت فرمائے۔ اس کے بعد پردہ لٹکا لیا اور اس دن کے بعد میں نے انھیں نہیں دیکھا۔
تشریح : (۱) راوی کا نام سالم، سبلان ان کا لقب اور ابو عبداللہ ان کی کنیت ہے۔ یہ غلام تھے، بعد میں آزاد ہوئے۔ (۲) (مکاتب) اس غلام کو کہا جاتا ہے جو اپنا معاوضہ ادا کرنے کا معاہدہ اپنے مالک سے کرلے۔ ایسا غلام جب تک معاوضہ ادا نہ کر دے، وہ اس مالک کا غلام ہی رہتا ہے۔ چونکہ غلاموں سے پردہ ضروری نہیں، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سالم سے بے حجاب بات کرنا قابل اعتراض نہیں (اسی طرح لونڈیوں پر بھی پردہ واجب نہیں) جونہی سالم آزاد ہوا، آپ نے ان سے فوراً پردہ کرلیا۔ (۳) مذکورہ روایت قابل حجت ہے اگرچہ عمومی روایات میں مسح کا یہ طریقہ منقول نہیں، لیکن چونکہ یہ طریقہ بھی مستند ذریعے سے ثابت ہے، اس لیے انسان کبھی کبھار اس سنت مسح کو بھی اختیار کرسکتا ہے۔ (۴) امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے یوں لگتا ہے کہ وہ اس اندازِ مسح کو صرف عورت ک ےساتھ خاص سمجھتے ہیں لیکن سائل کے سوال اور اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وضو کرکے دکھانا اور پھر اس مسح کے طریقے کی نسبت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ طریقہ مرد و عورت سب کے لیے یکساں قابل عمل ہے۔ عورت کی تخصیص مرجوح ہے۔ واللہ أعلم۔ (۱) راوی کا نام سالم، سبلان ان کا لقب اور ابو عبداللہ ان کی کنیت ہے۔ یہ غلام تھے، بعد میں آزاد ہوئے۔ (۲) (مکاتب) اس غلام کو کہا جاتا ہے جو اپنا معاوضہ ادا کرنے کا معاہدہ اپنے مالک سے کرلے۔ ایسا غلام جب تک معاوضہ ادا نہ کر دے، وہ اس مالک کا غلام ہی رہتا ہے۔ چونکہ غلاموں سے پردہ ضروری نہیں، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سالم سے بے حجاب بات کرنا قابل اعتراض نہیں (اسی طرح لونڈیوں پر بھی پردہ واجب نہیں) جونہی سالم آزاد ہوا، آپ نے ان سے فوراً پردہ کرلیا۔ (۳) مذکورہ روایت قابل حجت ہے اگرچہ عمومی روایات میں مسح کا یہ طریقہ منقول نہیں، لیکن چونکہ یہ طریقہ بھی مستند ذریعے سے ثابت ہے، اس لیے انسان کبھی کبھار اس سنت مسح کو بھی اختیار کرسکتا ہے۔ (۴) امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے یوں لگتا ہے کہ وہ اس اندازِ مسح کو صرف عورت ک ےساتھ خاص سمجھتے ہیں لیکن سائل کے سوال اور اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وضو کرکے دکھانا اور پھر اس مسح کے طریقے کی نسبت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ طریقہ مرد و عورت سب کے لیے یکساں قابل عمل ہے۔ عورت کی تخصیص مرجوح ہے۔ واللہ أعلم۔