كِتَابُ الْحَيْضِ بَابُ التَّيَمُّمِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَابْنُ نُمَيْرٍ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا كَيْفَ يَصْنَعُ بِالصَّلَاةِ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: لَا يَتَيَمَّمُ وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا. فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ بِهَذِهِ الْآيَةِ فِي سُورَةِ الْمَائِدَةِ {فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا} [النساء: 43]. فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: لَوْ رُخِّصَ لَهُمْ فِي هَذِهِ الْآيَةِ لَأَوْشَكَ إِذَا بَرَدَ عَلَيْهِمُ الْمَاءُ أَنْ يَتَيَمَّمُوا بِالصَّعِيدِ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى، لِعَبْدِ اللهِ: أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ فَأَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّةُ ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: «إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ بِيَدَيْكَ هَكَذَا» ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدَيْهِ الْأَرْضَ ضَرْبَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ مَسَحَ الشِّمَالَ عَلَى الْيَمِينِ، وَظَاهِرَ كَفَّيْهِ، وَوَجْهَهُ فَقَالَ: عَبْدُ اللهِ أَوَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِقَوْلِ عَمَّارٍ؟
کتاب: حیض کا معنی و مفہوم تیمم (کابیان ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے شقیق سے روایت کی، کہا: میں حضرت عبد اللہ (بن مسعود) اور ابو موسیٰ ؓ کے بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ نے پوچھا: ابو عبد الرحمن! بتائیےاگر انسان حالت جنابت میں ہو اور ایک ماہ تک اسے پانی نہ ملے تو وہ نماز کا کیا کرے؟ اس پر حضرت عبد اللہ (بن مسعود) نے جواب دیا:وہ تیمم نہ کرے، چاہے اسے ایک ماہ تک پانی نہ ملے۔ اس پر ابو موسیٰ نے کہا: تو سورہ مائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہے: ’’تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو؟‘‘ اس پر عبد اللہ نے جواب دیا: اگر انہیں اس آیت کی بنا پر رخصت دے دی گئی تو خطرہ ہے جب انہیں پانی ٹھنڈا محسوس ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم کر لیں گے۔ ابو موسیٰ نے عبد اللہ سے کہا: کیا آپ نے عمار کی یہ بات نہیں سنی کہ مجھے رسول اللہﷺ نے کسی کام کے لیے بھیجا، مجھے جنابت ہو گئی اور پانی نہ ملا تو میں چوپائے کی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا (اور نماز پڑھ لی)، پھر میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمہارے لیے بس اپنے دونوں ہاتھوں سے اس طرح کرنا کافی تھا۔‘‘ پھر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ ایک بار زمین پر مارے، پھر بائیں ہاتھ کو دائیں پر اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کی پشت پر اور اپنے چہرے پر ملا۔ تو عبد اللہ (بن مسعود) نے جواب دیا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت عمر عمار کی بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ (تفصیل آگے حدیث: 820 میں ہے۔)