مُقَدِّمَةُ الکِتَابِ لِلإِمَامِ مُسلِمِ رَحِمَهُ الله - بَابُ في أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنَ الدِّينِ وأن الرواية لا تكون إلا عن الثقات وأن جرح الرواة بما هو فيهم جائز بل واجب وأنه ليس من الغيبة المحرمة بل من الذب عن الشريعة المكرمة صحيح وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي دَاوُدَ الطَّيَالِسِيِّ: قَدْ أَكْثَرْتَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ، فَمَا لَكَ لَمْ تَسْمَعْ مِنْهُ حَدِيثَ الْعَطَّارَةِ الَّذِي رَوَى لَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ؟ قَالَ لِيَ: " اسْكُتْ، فَأَنَا لَقِيتُ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، فَسَأَلْنَاهُ، فَقُلْنَا لَهُ: هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي تَرْوِيهَا عَنْ أَنَسٍ؟ فَقَالَ: أَرَأَيْتُمَا رَجُلًا يُذْنِبُ فَيَتُوبُ، أَلَيْسَ يَتُوبُ اللهُ عَلَيْهِ؟ قَالَ: قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: مَا سَمِعْتُ مِنْ أَنَسٍ مِنْ ذَا قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، إِنْ كَانَ لَا يَعْلَمُ النَّاسُ فَأَنْتُمَا لَا تَعْلَمَانِ أَنِّي لَمْ أَلْقَ أَنَسًا قَالَ أَبُو دَاوُدَ: " فَبَلَغَنَا بَعْدُ أَنَّهُ يَرْوِي، فَأَتَيْنَاهُ أَنَا وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ: أَتُوبُ، ثُمَّ كَانَ بَعْدُ يُحَدِّثُ فَتَرَكْنَاهُ
مقدمہ صحیح مسلم ۔ اسناد دین میں سے ہے، (حدیث کی) روایت صرف ثقہ راویوں سے ہو سکتی ہے۔ راویوں میں پائی جانے والی بعض کمزوریوں، کوتاہیوں کی وجہ سے ان پر جرح جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، یہ غیبت میں شامل نہیں جو حرام ہے بلکہ یہ تو شریعت مکرمہ کا دفاع ہے۔ ۔ محمود بن غیلان نے کہا: میں نے ابوداود طیالسی سے کہا: آپ نے عباد بن منصور سے بہت زیادہ روایتیں لی ہیں، پھر کیا ہوا کہ آپ نے عطارہ والی روایت جو نضر بن شمیل نے ہمارے سامنے بیان کی، ان سے نہیں سنی؟ انہوں نے مجھ سے کہا: خاموش رہو، میں اور عبد الرحمن بن مہدی زیاد بن میمون سے ملے اور اس سے پوچھتے ہوئے کہا: یہ احادیث جو تم حضرت انس سے روایت کرتے ہو (کیا ہیں؟) تو وہ کہنے لگا: تم دونوں دیکھو کہ ایک آدمی گناہ کرتا ہے، پھر توبہ کر لیتا ہے تو کیا اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرتا! کہا: ہم نے کہا:ہاں۔ اس نے کہا: میں نے ان (احادیث) میں سے انس سے کچھ نہیں سنا، نہ کم نہ زیادہ، اگر لوگ نہیں جانتے تو (کیا) تم دونوں بھی نہیں جانتے کہ میں انس سے نہیں ملا!۔ ابوداود نے کہا: پھر ہمیں یہ خبر پہنچی کہ وہ (وہی) روایتیں بیان کرتا ہے تو میں اور عبد الرحمن اس کے پاس آئے تو وہ کہنے لگا: میں توبہ کرتا ہوں، پھر اس کے بعد بھی وہ وہی حدیثیں بیان کرتا تھا تو ہم نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا۔