صحيح مسلم - حدیث 51

مُقَدِّمَةُ الکِتَابِ لِلإِمَامِ مُسلِمِ رَحِمَهُ الله - بَابُ في أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنَ الدِّينِ وأن الرواية لا تكون إلا عن الثقات وأن جرح الرواة بما هو فيهم جائز بل واجب وأنه ليس من الغيبة المحرمة بل من الذب عن الشريعة المكرمة صحيح دَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: كُنَّا نَأْتِي أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيَّ وَنَحْنُ غِلْمَةٌ أَيْفَاعٌ، فَكَانَ يَقُولُ لَنَا: «لَا تُجَالِسُوا الْقُصَّاصَ غَيْرَ أَبِي الْأَحْوَصِ، وَإِيَّاكُمْ وَشَقِيقًا»، قَالَ: «وَكَانَ شَقِيقٌ هَذَا يَرَى رَأْيَ الْخَوَارِجِ، وَلَيْسَ بِأَبِي وَائِلٍ»

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 51

مقدمہ صحیح مسلم ۔ اسناد دین میں سے ہے، (حدیث کی) روایت صرف ثقہ راویوں سے ہو سکتی ہے۔ راویوں میں پائی جانے والی بعض کمزوریوں، کوتاہیوں کی وجہ سے ان پر جرح جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، یہ غیبت میں شامل نہیں جو حرام ہے بلکہ یہ تو شریعت مکرمہ کا دفاع ہے۔ ہمیں عاصم نے حدیث بیان کی، کہا: ہم بالکل نو عمر لڑکے تھے جو ابو عبد الرحمن سلمی کے پاس حاضر ہوتے تھے، وہ ہم سے کہا کرتے تھے: ابو احوص کے سوا دوسرے قصہ گوؤں (واعظوں) کی مجالس میں مت بیٹھو اور شقیق سے بچ کر رہو۔ شقیق خوارج کا نقطہ نظر رکھتا تھا، یہ ابو وائل نہیں (بلکہ شقیق ضبی ہے۔)