صحيح مسلم - حدیث 367

كِتَابُ الْإِيمَانِ بَابُ رَفْعِ الْأَمَانَةِ وَالْإِيمَانِ مِنْ بَعْضِ الْقُلُوبِ، وَعَرْضِ الْفِتَنِ عَلَى الْقُلُوبِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، ح، وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا، وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ حَدَّثَنَا: «أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ، فَعَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ، وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ»، ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِ الْأَمَانَةِ قَالَ: " يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ [ص:127]، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ - ثُمَّ أَخَذَ حَصًى فَدَحْرَجَهُ عَلَى رِجْلِهِ - فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ لَا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ حَتَّى يُقَالَ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا، حَتَّى يُقَالَ لِلرَّجُلِ: مَا أَجْلَدَهُ مَا أَظْرَفَهُ مَا أَعْقَلَهُ وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ وَمَا أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ، لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ دِينُهُ، وَلَئِنْ كَانَ نَصْرَانِيًّا أَوْ يَهُودِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، وَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لِأُبَايِعَ مِنْكُمْ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 367

کتاب: ایمان کا بیان بعض دلوں سے امانت اور ایمان کا اٹھا لیا جانا اور فتنوں کا دلوں پر ڈالا جانا ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے حدیث سنائی ، انہوں نے زید بن وہب سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ ﷜ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسو ل اللہ ﷺ نے ہمیں دو باتیں بتائیں ، ایک تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں ، آپ نے ہمیں بتایا: ’’امانت لوگوں کے دلوں کے نہاں خانے میں اتری ،پھر قرآن اترا ، انہوں نے قرآن سے سیکھا اور سنت سے جانا ۔ ‘‘ پھر آپﷺ نے ہمیں امانت اٹھالیے جانے کے بارے میں بتایا ،آپ نے فرمایا: ’’ آدمی ایک بار سوئے گا تو اس کے دل میں امانت سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا ، پھر وہ ایک نیند لے گا تو ( بقیہ) امانت اس کے دل سے سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان ایک آبلے کی طرح رہ جائے گا جیسے تم انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکاؤ تو ( وہ حصہ) پھول جاتا ہے اور تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو ، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا ۔ ‘‘ پھر آپ نے ایک کنکری لی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکایا۔’’پھر لوگ خرید و فروخت کریں گے لیکن کوئی بھی پوری طرح امانت کی ادائیگی نہ کرے گا یہاں تک کہ جائے گا :’’فلاں خاندان میں ایک آدمی امانت دار ہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ کسی آدمی کے بارے میں کہا جائے گا، وہ کس قدر مضبوط ہے ، کتنا لائق ہے ، کیسا عقل مند ہے ! جبکہ اس کے دل میں رائے کے دانے کے برابر (بھی ) ایمان نہ ہو گا ۔‘‘ (پھر حذیفہ ﷜ نے کہا:) مجھ پر ایک دو گزرا ، مجھے پروا نہیں تھی کہ میں تم سے کس کے ساتھ لین دین کروں ، اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دین اس کو میرے پا س واپس لے آئے گا اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہے تو اس کا حاکم اس کو میرے پاس لے آئے گا لیکن آج میں فلاں اور فلاں کے سوا تم میں سے کسی کے ساتھ لین دین نہیں کر سکتا ۔