كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ بَيَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ، وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ، وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ، وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ أَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ وَنَجْعَلَهَا عُمْرَةً، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيْنَا، وَضَاقَتْ بِهِ صُدُورُنَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا نَدْرِي أَشَيْءٌ بَلَغَهُ مِنَ السَّمَاءِ أَمْ شَيْءٌ مِنْ قِبَلِ النَّاسِ، فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، أَحِلُّوا، فَلَوْلَا الْهَدْيُ الَّذِي مَعِي، فَعَلْتُ كَمَا فَعَلْتُمْ» قَالَ: فَأَحْلَلْنَا حَتَّى وَطِئْنَا النِّسَاءَ، وَفَعَلْنَا مَا يَفْعَلُ الْحَلَالُ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ، وَجَعَلْنَا مَكَّةَ بِظَهْرٍ، أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ
کتاب: حج کے احکام ومسائل احرام کی مختلف صورتیں ‘حج افراد تمتع اور قران ‘نیز عمرے (کے احرام )میں ‘احرام حج کو شامل کر لینے کا جواز ‘اور (یہ کہ)حج قران کرنے والا کب احرام کھولے عبد الملک بن ابی سلیمان نے عطا ء سے انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہا :ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا (احرا م باندھ کر) تلبیہ کہا۔جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال ہو جا ئیں اور اسے (حج کی نیت کو) عمرے میں بدل دیں،یہ بات ہمیں بہت گراں (بڑی) لگی اور اس سے ہمارے دل بہت تنگ ہو ئے (ہمارے اس قلق کی خبر ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی ۔معلوم نہیں کہ آپ کو آسمان سے (بذریعہ وحی ) اس چیز کی خبر پہنچی یا لوگوں کے ذریعے سے کو ئی چیز معلوم ہوئی۔آپ نے فرمایا:"اے لوگو !حلال ہو جاؤ(احرا م کھول دو) اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جس طرح تم نے کیا ہے (جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) بیان کیا: ہم حلال (احرا م سےآزاد ) ہو گئے حتی کہ اپنی بیویوں سے قربت بھی کی اور (وہ سب کچھ ) کیا جو حلال (احرا م کے بغیر ) انسان کرتا ہے۔ حتی کہ ترویہ کا دن (آٹھ ذوالحجہ )آگیا ۔اور ہم نے مکہ کو پیچھے چھوڑ ا ( خیر باد کہا) اور حج کا (احرا م باند ھ کر) تلبیہ کہنے لگے۔ حدیث نمبر۔2945۔موسیٰ بن نافع نے کہا: میں عمرے کی نیت سے یو م ترویہ (آٹھ ذوالحجہ ) سے چار دن پہلے مکہ پہنچا لوگوں نے کہا: اب تو تمھا رمکی حج ہو گا ۔(میں ان کی باتیں سن کر) عطاء بن ابی رباح کے ہاں حاضر ہوا اور ان سے (اس مسئلے کے بارے میں) فتویٰ پوچھا۔عطاء نے جواب دیا: مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث سنائی کہ انھوں نے اُس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی تھی لوگوں نے حج افراد کا (احرا م باند ھ کر ) تلبیہ کہا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر مایا:"اپنے احرا م سے فارغ ہو جاؤ۔ بیت اللہ کا اور صفا و مروہ کا طواف (سعی کرو ۔اپنے بال چھوٹے کرو الو اورحلال (احرام سے آزاد ) ہو جاؤ جب تویہ (آٹھ ذوالحجہ) کا دن آجا ئے تو حج کا (احرا م باندھ کر )تلبیہ کہو۔ اور( حج افراد کو)جس کے لیے تم آئے تھے اسے حج تمتع بنا لو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا : (اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !) ہم اسے کیسے حج تمتع بنا لیں ؟ہم نے تو صرف حج کا نام لے کر تلبیہ کہا تھا آپ نے فر مایا:" میں نے تمھیں جو حکم دیا ہے وہی کرو ۔اگر میں اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا تو اسی طرح کرتا جس طرح تمھیں حکم دے رہا ہوں۔لیکن مجھ پر (احرام کی وجہ سے) حرام کردہ چیزیں اس وقت تک حلال نہیں ہو ں گی جب تک کہ قربانی اپنی قربان گا ہ میں نہیں پہنچ جا تی۔اس پر لوگوں نے ویسا ہی کیا (جس کا آپ نے حکم دیا تھا )