كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ بَيَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ، وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ، وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ، وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ صحيح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَفْلَحَ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، وَفِي حُرُمِ الْحَجِّ، وَلَيَالِي الْحَجِّ، حَتَّى نَزَلْنَا بِسَرِفَ، فَخَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ مِنْكُمْ هَدْيٌ فَأَحَبَّ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً، فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلَا» فَمِنْهُمُ الْآخِذُ بِهَا وَالتَّارِكُ لَهَا، مِمَّنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، فَأَمَّا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ، وَمَعَ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِهِ لَهُمْ قُوَّةٌ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: «مَا يُبْكِيكِ؟» قُلْتُ: سَمِعْتُ كَلَامَكَ مَعَ أَصْحَابِكَ فَسَمِعْتُ بِالْعُمْرَةِ قَالَ «وَمَا لَكِ؟» قُلْتُ: لَا أُصَلِّي، قَالَ: «فَلَا يَضُرُّكِ، فَكُونِي فِي حَجِّكِ، فَعَسَى اللهُ أَنْ يَرْزُقَكِيهَا، وَإِنَّمَا أَنْتِ مِنْ بَنَاتِ آدَمَ، كَتَبَ اللهُ عَلَيْكِ مَا كَتَبَ عَلَيْهِنَّ» قَالَتْ: فَخَرَجْتُ فِي حَجَّتِي حَتَّى نَزَلْنَا مِنًى فَتَطَهَّرْتُ، ثُمَّ طُفْنَا بِالْبَيْتِ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحَصَّبَ، فَدَعَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: «اخْرُجْ بِأُخْتِكَ مِنَ الْحَرَمِ فَلْتُهِلَّ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ لِتَطُفْ بِالْبَيْتِ، فَإِنِّي أَنْتَظِرُكُمَا هَا هُنَا» قَالَتْ: فَخَرَجْنَا فَأَهْلَلْتُ، ثُمَّ طُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَجِئْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي مَنْزِلِهِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: «هَلْ فَرَغْتِ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، فَآذَنَ فِي أَصْحَابِهِ بِالرَّحِيلِ، فَخَرَجَ فَمَرَّ بِالْبَيْتِ فَطَافَ بِهِ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْمَدِينَةِ
کتاب: حج کے احکام ومسائل احرام کی مختلف صورتیں ‘حج افراد تمتع اور قران ‘نیز عمرے (کے احرام )میں ‘احرام حج کو شامل کر لینے کا جواز ‘اور (یہ کہ)حج قران کرنے والا کب احرام کھولے افلح بن حمید نے قاسم سے انھوں نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم حج کا تلبیہ کہتے ہو ئے حج کے مہینوں میں حج کی حرمتوں (پابندیوں ) میں اور حج کے ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں روانہ ہو ئے حتی کہ سرف کے مقا م پر اترے ۔(وہاں پہنچ کر ) آپ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس تشریف لے گئے اور فر ما یا :" تم میں سے جس کے ہمرا ہ قربانی نہیں ہے ۔اور وہ اپنے حج کو عمرے میں بدلنا چاہتا ہے توا یسا کر لے اور جس کے ساتھ قربانی کے جا نور ہیں وہ (ایسا) نہ کرے ۔ان میں سے کچھ نے جن کے پاس قربانی نہیں تھی اس (عمرے ) کو اختیار کر لیا اور کچھ لوگوں نے رہنے دیا ۔البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ کے ساتھ بعض صاحب استطاعت صحابہ کے ساتھ قربانیاں تھیں ۔پھر آپ میرے پاس تشریف لا ئے تو میں رو رہی تھی ۔آپ نے فر ما یا :" کیوں روتی ہو؟ میں نے جواب دیا میں نے آپ کی آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ گفتگو سنی ہے اور عمرے کے متعلق بھی سن لیا ہے میں عمرے سے روک دی گئی ہوں ۔آپ نے پو چھا : (کیوں) تمھیں کیا ہے ؟میں نے جواب دیا: میں نماز ادا نہیں کر سکتی ۔آپ نے فر ما یا :" یہ (ایام عمرے حج میں) تمھارے لیے نقصان دہ نہیں تم اپنے حج میں (لگی ) رہو امید ہے کہ اللہ تعا لیٰ تمھیں یہ ( عمرے کا) اجر بھی دے گا تم آدم ؑکی بیٹیوں میں سے ہو۔اللہ تعا لیٰ نے تمھارے لیے بھی وہی کچھ لکھ دیا ہے جو ان کی قسمت میں لکھا ہے کہا (پھر) میں احرا م ہی کی حا لت میں) اپنے حج کے سفر میں نکلی حتیٰ کہ ہم منیٰ میں جا اترے اور( تب ) میں ایام سے پاک ہو گئی پھر ہم سب نے بیت اللہ کا طواف (افاضہ ) کیا ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی محصب میں پڑاؤ ڈالا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (میرے بھا ئی) کو بلا یا اور ان سے) فر ما یا :" اپنی بہن کو حرم سے باہر (تنعیم) لے جاؤ تا کہ یہ (احرام باندھ کر) عمرے کا تلبیہ کہے اور (عمرے کے لیے بیت اللہ (اور صفامروہ)کا طواف کر لے ۔میں (تمھا ری واپسی تک) تم دونوں کا یہیں انتظار کروں گا ۔(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا : ہم نکل پڑے میں نے (احرا م باندھ کر) بیت اللہ اور صفامروہ کا طواف کیا۔ہم لوٹ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات کے وقت اپنی منزل ہی پر تھے ۔آپ نے( مجھ سے ) پو چھا :" کیا تم (عمرے سے )فارغ ہو گئی ہو؟ میں نے کہا جی ہاں پھر آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کو چ کے اعلان کا حکم دیا۔ آپ (وہاں سے) نکلے بیت اللہ کے پاس سے گزرے اور فجر کی نماز سے پہلے اس کا طواف (وداع ) کیا پھر مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے ۔