صحيح مسلم - حدیث 2305

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ التَّرْغِيبِ فِي الصَّدَقَةِ صحيح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ رُفَيْعٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنْ اللَّيَالِي فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَحْدَهُ لَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ قَالَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَهُ أَحَدٌ قَالَ فَجَعَلْتُ أَمْشِي فِي ظِلِّ الْقَمَرِ فَالْتَفَتَ فَرَآنِي فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقُلْتُ أَبُو ذَرٍّ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ قَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ تَعَالَهْ قَالَ فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً فَقَالَ إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمْ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ وَشِمَالَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَاءَهُ وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا قَالَ فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً فَقَالَ اجْلِسْ هَا هُنَا قَالَ فَأَجْلَسَنِي فِي قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ فَقَالَ لِي اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ قَالَ فَانْطَلَقَ فِي الْحَرَّةِ حَتَّى لَا أَرَاهُ فَلَبِثَ عَنِّي فَأَطَالَ اللَّبْثَ ثُمَّ إِنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُقْبِلٌ وَهُوَ يَقُولُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ مَنْ تُكَلِّمُ فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا قَالَ ذَاكَ جِبْرِيلُ عَرَضَ لِي فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ فَقَالَ بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ فَقُلْتُ يَا جِبْرِيلُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى قَالَ نَعَمْ وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 2305

کتاب: زکوٰۃ کے احکام و مسائل صدقے کی ترغیب عبدالعزیز بن رفیع نے زید بن وہب سے اور انھوں نے ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:میں ایک رات(گھرسے) باہر نکلا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے جارہے ہیں،آپ کے ساتھ کوئی انسان نہیں تو میں نے خیال کیا کہ آپ اس بات کو ناپسند کررہے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ چلے،چنانچہ میں چاند کے سائے میں چلنے لگا،آپ مڑے تو مجھے دیکھ لیا اور فرمایا:" یہ کون ہے؟"میں نے عرض کی: ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں،اللہ مجھے آپ پر قربان کرے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ابو زر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )آجاؤ۔"کہا: میں کچھ دیر آپ کے ساتھ چلا تو آپ نے فرمایا:" بے شک زیادہ مال والے ہی قیامت کے دن کم (مایہ ) ہوں گے،سوائے ان کے جن کو اللہ نے مال عطا فرمایا: اور ا نھوں نے اسے دائیں،بائیں اور آگے ،پیچھے اڑا ڈالا اور اس میں نیکی کے کام کئے۔"میں ایک گھڑی آپ کے ساتھ چلتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہاں بیٹھ جاؤ۔"آپ نے مجھے ایک ہموار زمین میں بٹھا دیا جس کے گرد پتھر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:"یہیں بیٹھے رہنا یہاں تک کہ میں تمھارے پاس لوٹ آؤں۔"آپ پتھریلے میدان(حرے) میں چل پڑے حتیٰ کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے،آپ مجھ سے دور رکے رہے اور زیادہ دیرکردی،پھر میں نے آپ کی آواز سنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف آتے ہوئے فرمارہے تھے:"خواہ اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو۔"جب آپ تشریف لئے آئے تو میں صبر نہ کرسکا میں نے عرض کی:اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ مجھے آپ پر نثار فرمائے!آپ سیاہ پتھروں کے میدان(حرہ) کے کنارے کس سے گفتگو فرمارہے تھے؟میں نے تو کسی کو نہیں سناجو آپ کو جواب دے رہا ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو سیاہ پتھروں کے کنارے میرے سامنے آئے اور کہا:اپنی امت کو بشارت دے دیجئے کہ جو کوئی اس حالت میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا۔میں نے کہا:اے جبرئیل علیہ السلام! چاہے اس نے چوری کی ہو یا زنا کیا ہو؟انھوں نےکہا:ہاں!فرمایا: میں نے پھر کہا:خواہ اس نے چوری کی ہو خواہ اس نے زنا کیا ہو؟انھوں نے کہا:ہاں۔میں نے پھر(تیسری بار)پوچھا: خواہ اس نے چوری کی ہو خواہ اس نے زنا کیا ہو؟انھوں نے کہا:ہاں،خواہ اس نے شراب(بھی) پی ہو۔"