كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ، وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، - وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ - قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهْ، مَا شَأْنُكُمْ؟ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ، فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ، مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي، قَالَ: «إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ» أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَ اللهُ بِالْإِسْلَامِ، وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ: «فَلَا تَأْتِهِمْ» قَالَ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ: " ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ، فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ - قَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ: فَلَا يَصُدَّنَّكُمْ - " قَالَ قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ: «كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ» قَالَ: وَكَانَتْ لِي جَارِيَةٌ تَرْعَى غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ، فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا الذِّيبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ، آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَفَلَا أُعْتِقُهَا؟ قَالَ: «ائْتِنِي بِهَا» فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ لَهَا: «أَيْنَ اللهُ؟» قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ: «مَنْ أَنَا؟» قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، قَالَ: «أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ»
کتاب: مسجدیں اور نماز کی جگہیں نماز کے دوران میں بات چیت کی حرمت اور پہلے جواز کا منسوخ ہونا ہم سے ابو جعفرمحمد بن صباح اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی۔حدیث کے لفظوں میں بھی دونوں ایک دوسرے کے قریب ہیں ۔دونوں نے کہا:ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث بیان کی ‘انھوں نے حجاج صوّاف سے انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے ‘انھوں نے ہلال بن ابی میمونہ سے ‘انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت معاویہ بن ابی حکم سلمیسے روایت کی انھوں نے کہا:میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑ ھ رہاتھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا:یرحمک اللہ’’اللہ تجھ پر رحم کرے ۔‘‘لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا ۔میں نے (دل میں)کہا:میری ماں مجھے گم پائے ‘تم سب کو کیا ہو گیا؟ کہ مجھے گھور رہے ہو پھروہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے ۔جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں (تو مجھے عجیب لگا)لیکن میں خاموش رہا ‘جب رسو ل اللہ نماز سے فارغ ہوئے ‘میرے ماں باپ آپ پرقربان !میں نے آپ سےپہلے اور آپکے بعدآپ سے بہتر کوئی معلم (سکھانےوالا)نہیں دیکھا!اللہ کی قسم !نہ تو آپنے مجھے ڈانٹا ‘نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا ۔ آپنے فرمایا:’’یہ نماز ہے اس میں کسی قسم کی گفتگو روانہیں ہے ‘یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے ۔‘‘یا جیسے رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا۔میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول اللہ !ابھی تھوڑا عرصہ پہلے جاہلیت میں تھا ‘اور اللہ نے اسلام سے نوازدیا ہے ‘ہم میں سے کچھ لوگ ہیں جو کاہنوں (پیش گوئی کرنے والے )کے پاس جاتے ہیں ۔آپنے فرمایا :’’تم ان کے پاس نہ جانا ۔‘‘میں نے عرض کی :ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو بدشگونی لیتےہیں ۔آپن فرمایا:’’یہ ایسی بات ہے جو وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں (ایک طرح کا وہم ہے )یہ (وہم)انھیں (ان کے )کسی کام سے نہ روکے ۔‘‘(محمد)ابن صباح نے روایت کی :’’یہ تمہیں کسی صورت (اپنے کاموں سے ) نہ رزکے ۔‘‘میں نے عرض کی :ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچھنے ہیں۔‘‘آپنے فرمایا :’’سابقہ انبیاء میں سے ایک بنی لکیریں کھینچا کرتے تھے تو جس کی لکیریں ان کے موافق ہو جائیں وہ تو صحیح ہو سکتی ہیں ‘‘(لیکن اب اس کا جاننا مشکل ہے ۔)(معاویہ بن حکم نے )کہا :میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریا چراتی تھی ‘ایک دن میں اس طرف جاانکلاتو بھیڑیا اس کی بکری لے جا چکا تھا ۔میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں‘مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ان کو ہوتا ہے (مجھے صبر کرناچاہیے تھا)لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑجڑدیا اس کے بعد رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہو اآپنے میری اس حرکت کو میرے لیے بڑی (غلط)حرکت قرار دیا۔میں نے عرض کی :اے اللہ کے رسول !کیا میں اسے آزادنہ کردوں؟آپ نےفرمایا:’’اسے میرےپاس لے آؤ۔‘‘ میں اسے لےکر آپ کےپاس حاضر ہوا ،آپ نےاس سے پوچھا:’’اللہ کہا ں ہے؟ ‘‘ اس نےکہا : آسمان میں۔ آپ نےپوچھا : ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نےکہا: آپ اللہ کےرسول ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا:’’اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے