كِتَابُ الْإِيمَانِ بَابُ الْأَمْرِ بِالْإِيمَانِ بِاللهِ وَرَسُولِهِ، وَشَرَائِعِ الدِّينِ، وَالدُّعَاءِ إِلَيْهِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، قَالَ أَبُو بَكْرِ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، قَالَ: كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ يَدَيِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَبَيْنَ النَّاسِ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، تَسْأَلُهُ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ، فَقَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنِ الْوَفْدُ؟ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ؟»، قَالُوا: رَبِيعَةُ، قَالَ: «مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ، أَوْ بِالْوَفْدِ، غَيْرَ خَزَايَا، وَلَا النَّدَامَى»، قَالَ: فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ، وَإِنَّ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيَّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، وَإِنَّا لَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيكَ إِلَّا فِي شَهْرِ الْحَرَامِ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ، وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، قَالَ: «أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللهِ وَحْدَهُ»، وَقَالَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللهِ؟» قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَأَنَّ تُؤَدُّوا خُمُسًا مِنَ الْمَغْنَمِ»، وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُزَفَّتِ - قَالَ شُعْبَةُ: وَرُبَّمَا قَالَ - النَّقِيرِ، قَالَ شُعْبَةُ: وَرُبَّمَا قَالَ: الْمُقَيَّرِ، وَقَالَ: «احْفَظُوهُ، وَأَخْبِرُوا بِهِ مِنْ وَرَائِكُمْ» وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي رِوَايَتِهِ: «مَنْ وَرَاءَكُمْ»، وَلَيْسَ فِي رِوَايَتِهِ الْمُقَيَّرُ.
کتاب: ایمان کا بیان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان ، دینی احکام پر عمل ، اس کی طرف دعوت ، اس کے بارے میں سوال کرنے ، دین کے تحفظ اور جن لوگوں تک دین نہ پہنچا ہو ان تک پہنچانے کا حکم شعبہ نے ابو جمرہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور (دوسرے ) لوگوں کے درمیان ترجمان تھا ، ان کے پاس ایک عورت آئی ، وہ ان سے گھڑے کی نبیذ کے بارے میں سوال کر رہی تھی توحضرت ابن عباس نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عبد القیس کا وفد آیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : ’’یہ کون سا وفد ہے ؟ ( یا فرمایا : یہ کو ن لوگ ہیں ؟) ‘‘ انہوں نے کہا : ربیعہ (قبیلہ سے ہیں۔)فرمایا:’’ اس قوم ( یا وفد) کو خوش آمدید جو رسوا ہوئے نہ نادم ۔ ‘‘ ( ابن عباس نے ) کہا ، ان لوگوں نے عرض کی : اے اللہ کےرسول ! ہم لوگ آپ کے پاس بہت دور سے آتے ہیں ، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا یہ قبیلہ (حائل ) ہے ، ہم (کسی ) حرمت والے مہینے کے سوا آپ کے پاس نہیں آ سکتے ، آپ ہمیں فیصلہ کن بات بتائیے جو ہم اپنے( گھروں میں ) پیچھے لوگوں کو (بھی ) بتائیں اور اس کے ذریعے سے ہم جنت میں داخل ہو جائیں ۔ ابن عباس نے بتایا : آپ نے ان چار باتوں کا حکم دیا اور چار چیزیں سے روکا ۔ آپ نے ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا کا حکم دیا اور پوچھا : ’’جانتے ہو ، صرف اللہ پر ایمان لانا کیا ہے ؟ ‘‘ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’اس حقیقت کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکاۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے اس کا پانچواں حصہ ادا کرو۔‘‘ اور انہیں خشک کدو سے بنائے ہوئے برتن ، سبز مٹکے اور تارکول ملے ہوئے برتن ( استعمال کرنے) سے منع کیا (شعبہ نے کہا :) ابو جمرہ نے شاید نقیر (لکڑی میں کھدائی کر کے بنایا ہوا برتن کہا یا شاید مقیر (تارکول ملا ہوا برتن ) کہا ۔ اور آپ نے فرمایا : ’’ان کو خوب یاد رکھو اور اپنے پیچھے (والوں کو ) بتا دو ۔ ‘‘ ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت میں (من ورائکم کے بجائے ) من وراءکم (ان کو (بتاؤ) جو تمہارے پیچھے ہیں ) کے الفاظ ہیں اور ان کی روایت میں مقیر کا ذکر نہیں (بلکہ نقیر کا ہے ۔ )