كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَوَارِبِيُّ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عَمِّي عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ يَكُونُ حَامِيَةَ الْقَوْمِ وَيَدْفَعُ عَنْ أَصْحَابِهِ أَيَكُونُ نَصِيبُهُ مِثْلَ نَصِيبِ غَيْرِهِ؟ فَقَالَ: ((ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ ابْنَ أُمِّ سَعْدٍ وَهَلْ تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ؟)) لَمْ يَرْوِهِ عَنِ الزُّهْرِيِّ إِلَّا عَبْدُ الْحَمِيدِ تَفَرَّدَ بِهِ مُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ
دلوں کونرم کرنے کا بیان
باب
سیّدنا سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک آدمی اپنی قوم کی حمایت کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں کا دفاع کرتا ہے کیا اسے بھی اور لوگوں کی طرح حصہ ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’اے اُمّ سعد کے بیٹے! تیری ماں تجھے گم پائے تم تو اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیے جاتے ہو اور مدد کیے جاتے ہو۔‘‘
تشریح :
(۱) ابن بطال کہتے ہیں اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کمزور وناتواں لوگ دعا میں انتہائی مخلص اور عبادت میں زیادہ خشوع وخضوع کرنے والے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دل دنیا کی زیبائش وزینت سے خالی ہوتے ہیں۔ (فتح الباری: ۹؍۴۶)
(۲) مسلمانوں کی فتح ونصرت میں کمزور وضعیف لوگوں کا زیادہ کردار ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کی دعائیں فتح ونصرت کا سبب بنتی ہیں۔
(۳) کمزور وضعیف لوگوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ یہ لوگ سراپا صبر وبرکت ہیں۔ لہٰذا ان کی قدر وعزت افزائی کرنی چاہیے۔
(۴) جنگ میں شریک قوی ونادار مالِ غنیمت میں برابر کے شریک ہوں گے۔ کیونکہ جہاں دشمن کو شکست میں بہادروں کا کردار مثالی ہے وہاں دشمن کی شکست میں ضعفاء کی دعائیں بھی شامل حال ہیں۔
تخریج :
مسند احمد: ۱؍۱۷۳۔ معجم الوسط، رقم : ۰۲۲۴۹ فتح الباری، کتاب الجهاد: ۶؍۸۹۔
(۱) ابن بطال کہتے ہیں اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کمزور وناتواں لوگ دعا میں انتہائی مخلص اور عبادت میں زیادہ خشوع وخضوع کرنے والے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دل دنیا کی زیبائش وزینت سے خالی ہوتے ہیں۔ (فتح الباری: ۹؍۴۶)
(۲) مسلمانوں کی فتح ونصرت میں کمزور وضعیف لوگوں کا زیادہ کردار ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کی دعائیں فتح ونصرت کا سبب بنتی ہیں۔
(۳) کمزور وضعیف لوگوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ یہ لوگ سراپا صبر وبرکت ہیں۔ لہٰذا ان کی قدر وعزت افزائی کرنی چاہیے۔
(۴) جنگ میں شریک قوی ونادار مالِ غنیمت میں برابر کے شریک ہوں گے۔ کیونکہ جہاں دشمن کو شکست میں بہادروں کا کردار مثالی ہے وہاں دشمن کی شکست میں ضعفاء کی دعائیں بھی شامل حال ہیں۔