كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُدْرِكٍ أَبُو حَفْصٍ بِقَصْرِ ابْنِ هُبَيْرَةَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ عُتْبَةُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُرِّ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ جَسَدِي وَقَالَ: ((يَا عَبْدَ اللَّهِ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، وَاعْدُدْ نَفْسَكَ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُرِّ إِلَّا ابْنُ ثَوْبَانَ
دلوں کونرم کرنے کا بیان
باب
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے جسم کا کچھ حصہ پکڑا اور فرمایا: ’’اے عبد اللہ! دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو یا راستے سے گزرنے والے ہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو۔‘‘
تشریح :
(۱) اس حدیث میں پردیسی یا مسافر کی طرح زندگی گزارنے سے مقصود یہ ہے کہ دنیا میں زیادہ دلچسپی نہ لی جائے، اپنی تمام امیدیں اس فانی دنیا سے وابستہ نہ کی جائیں بلکہ آخرت کی زندگی جو اصل زندگی ہے۔ اس کے حصول کے لیے توانائیاں صرف کی جائیں۔ جیسے پردیسی اور مسافر جائیداد بنانے اور اپنی ضروریات تک محدود ہوتا ہے۔ ایسے زندگی کی ضروریات تک محدود رہ کر آخرت کی کامیابی کا سامان کیا جائے۔
(۲) لمبی امیدیں نہ باندھی جائیں بلکہ اپنی موت کو قریب تر سمجھ کر زندگی کے لمحات بسر کیے جائیں، کیونکہ جب موت پیش نظر ہوگی تو وہ اپنے بہت سے معاملات سدھار لے گا اور وقت موت اسے ندامت وپشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔
تخریج :
بخاري، کتاب الرقاق، باب قول النبي صلی الله علیه وسلم کن فی الدنیا، رقم : ۶۴۱۶۔ سنن ترمذي، کتاب الزهد باب قصر الامل، رقم : ۲۳۳۳۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۴۱۱۴۔ مسند احمد: ۲؍۲۴۔
(۱) اس حدیث میں پردیسی یا مسافر کی طرح زندگی گزارنے سے مقصود یہ ہے کہ دنیا میں زیادہ دلچسپی نہ لی جائے، اپنی تمام امیدیں اس فانی دنیا سے وابستہ نہ کی جائیں بلکہ آخرت کی زندگی جو اصل زندگی ہے۔ اس کے حصول کے لیے توانائیاں صرف کی جائیں۔ جیسے پردیسی اور مسافر جائیداد بنانے اور اپنی ضروریات تک محدود ہوتا ہے۔ ایسے زندگی کی ضروریات تک محدود رہ کر آخرت کی کامیابی کا سامان کیا جائے۔
(۲) لمبی امیدیں نہ باندھی جائیں بلکہ اپنی موت کو قریب تر سمجھ کر زندگی کے لمحات بسر کیے جائیں، کیونکہ جب موت پیش نظر ہوگی تو وہ اپنے بہت سے معاملات سدھار لے گا اور وقت موت اسے ندامت وپشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔