معجم صغیر للطبرانی - حدیث 917

كِتَابُ الحُدُودِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ كَعْبٍ الْوَاسِطِيُّ الْحَافِظُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الدَّقِيقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي نُعَيْمٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ﴾ [البقرة: 178] قَالَ ((كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِذَا قُتِلَ فِيهِمُ الْقَتِيلُ عَمْدًا لَمْ يَحِلَّ لَهُمْ إِلَّا الْقَوَدُ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الدِّيَةُ فَأُمِرَ هَذَا أَنْ يَتِّبِعَ بِالْمَعْرُوفِ وَأُمِرَ هَذَا أَنْ يُؤَدِّيَ بِإِحْسَانٍ فَذَلِكُمْ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَبَانَ إِلَّا شَرِيكٌ تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي نُعَيْمٍ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 917

حدود كا بيان باب سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس فرمان ﴿ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ﴾ کے متعلق کہتے ہیں بنواسرائیل میں سے جب کوئی عمداً قتل کردیا جاتا تو ان کے لیے صرف قصاص ہی تھا مگر تمہارے لیے دیت بھی اللہ نے حلال کردی ہے اور ایک کو نیکی اور خوش اسلوبی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور دوسرے کو حکم دیا کہ وہ نیکی سے دیت ادا کرے پس یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی ہے۔‘‘
تشریح : (۱) یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا امت مسلمہ پر فضل وکرم ہے کہ اس نے اس امت پر نہایت شفقت کی اور انہیں پچھلی امتوں سے خاص وممتاز بنایا۔ نیز قتل کی سزا میں تخفیف کرکے اس میں یہ گنجائش رکھی کہ مقتول کے ورثاء راضی ہوجائیں تو قاتل خون بہا دے کر اپنی جان بخشی کراسکتا ہے ورنہ بنی اسرائیل میں قتل کی سزا فقط قتل ہی تھی۔ (۲) دیت کا معاملہ طے پاجانے کے بعد فریقین پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں چنانچہ مقتول کے ورثا دیت طلب کرنے میں معروف طریقہ اختیار کریں گے اور اشتعال انگیز کلمات اور قاتل کی توہین نہ کریں گے اور قاتل اچھے طریقے سے دیت ادا کرے گا بے جا ٹال مٹول اور ورثاء کو تنگ نہ کرے۔
تخریج : بخاري، کتاب الدیات باب من قتل له قتیل، رقم : ۶۸۸۱۔ معجم طبراني کبیر، رقم : ۱۱۱۵۵۔ (۱) یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا امت مسلمہ پر فضل وکرم ہے کہ اس نے اس امت پر نہایت شفقت کی اور انہیں پچھلی امتوں سے خاص وممتاز بنایا۔ نیز قتل کی سزا میں تخفیف کرکے اس میں یہ گنجائش رکھی کہ مقتول کے ورثاء راضی ہوجائیں تو قاتل خون بہا دے کر اپنی جان بخشی کراسکتا ہے ورنہ بنی اسرائیل میں قتل کی سزا فقط قتل ہی تھی۔ (۲) دیت کا معاملہ طے پاجانے کے بعد فریقین پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں چنانچہ مقتول کے ورثا دیت طلب کرنے میں معروف طریقہ اختیار کریں گے اور اشتعال انگیز کلمات اور قاتل کی توہین نہ کریں گے اور قاتل اچھے طریقے سے دیت ادا کرے گا بے جا ٹال مٹول اور ورثاء کو تنگ نہ کرے۔