معجم صغیر للطبرانی - حدیث 914

كِتَابُ الحُدُودِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ الدِّمَشْقِيُّ الْمُقْرِي، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هِشَامِ بْنِ يَحْيَى الْغَسَّانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((الْقَطْعُ فِي رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ يَحْيَى إِلَّا وَلَدُهُ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 914

حدود كا بيان باب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاتھ کاٹنا دینار کی چوتھائی یا اس سے اوپر پر ضروری ہے۔‘‘
تشریح : (۱) چوتھائی درہم کے برابر چوری کرنے والے چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اس مقدار سے کم قیمت پر چور کا ہاتھ کاٹنا جائز نہیں۔ (۲) جمہور علماء نے احادیث صحیحہ کی رو سے اسی مقدار کو قطع ید کا نصاب قرار دیا ہے۔ چنانچہ شافعی کہتے ہیں : چور کے ہاتھ کاٹنے کی چوری کا نصاب چوتھائی دینار ہے یا اتنی قیمت کی چوری، خواہ اس کی قیمت تین درہم، اس سے کم یا زیادہ ہو۔ اور اس سے کم قیمت پر چور کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے۔ نیز اکثر علماء بھی اسی موقف کے قائل ہیں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، عمر بن عبدالعزیز، اوزاعی، لیت، ابوثور اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی موقف راجح اور قرین صواب ہے۔ ( شرح النووي: ۱۱؍۱۸۲) (۳) چور کا ہاتھ کاٹنا ظلم نہیں بلکہ ظلم وجور کی روک تھام کا ذریعہ اور چوروں کو لگام ڈالنے کا بہترین ہتھیار ہے چوری وغیرہ سے وہی معاشرے محفوظ رہ سکتے ہیں جہاں اس اسلامی حد کا نفاذ ہوگا۔ موجودہ دور میں اس کی مثال سعودی عرب کی ریاست ہے۔ جہاں اس حد کے نفاذ کی وجہ سے دنیا میں کم ترین چوریاں اور ڈاکے پڑتے ہیں۔
تخریج : بخاري، کتاب الحدود، باب قول الله تعالٰی والسارق والسارقة، رقم : ۶۷۸۹۔ مسلم، کتاب الحدود باب حد السرقة، رقم : ۲؍۱۶۸۴۔ (۱) چوتھائی درہم کے برابر چوری کرنے والے چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اس مقدار سے کم قیمت پر چور کا ہاتھ کاٹنا جائز نہیں۔ (۲) جمہور علماء نے احادیث صحیحہ کی رو سے اسی مقدار کو قطع ید کا نصاب قرار دیا ہے۔ چنانچہ شافعی کہتے ہیں : چور کے ہاتھ کاٹنے کی چوری کا نصاب چوتھائی دینار ہے یا اتنی قیمت کی چوری، خواہ اس کی قیمت تین درہم، اس سے کم یا زیادہ ہو۔ اور اس سے کم قیمت پر چور کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے۔ نیز اکثر علماء بھی اسی موقف کے قائل ہیں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، عمر بن عبدالعزیز، اوزاعی، لیت، ابوثور اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور یہی موقف راجح اور قرین صواب ہے۔ ( شرح النووي: ۱۱؍۱۸۲) (۳) چور کا ہاتھ کاٹنا ظلم نہیں بلکہ ظلم وجور کی روک تھام کا ذریعہ اور چوروں کو لگام ڈالنے کا بہترین ہتھیار ہے چوری وغیرہ سے وہی معاشرے محفوظ رہ سکتے ہیں جہاں اس اسلامی حد کا نفاذ ہوگا۔ موجودہ دور میں اس کی مثال سعودی عرب کی ریاست ہے۔ جہاں اس حد کے نفاذ کی وجہ سے دنیا میں کم ترین چوریاں اور ڈاکے پڑتے ہیں۔