كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابٌ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الصَّبَاحِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا فَيْضُ بْنُ الْفَضْلِ الْبَجَلِيُّ، حَدَّثَنَا مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ، عَنْ عَلِيٍّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي الْجَنَّةِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((الْأَئِمَّةُ مِنْ قُرَيْشٍ أَبْرَارُهَا أُمَرَاءُ أَبْرَارِهَا وَفُجَّارُهَا أُمَرَاءُ فُجَّارِهَا وَلِكُلٍّ حَقٌّ، فَآتُوا كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ وَإِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ مُجَدَّعٌ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا مَا لَمْ يُخَيِّرْ أَحَدَكُمْ بَيْنَ إِسْلَامِهِ وَبَيْنَ ضَرْبِ عُنُقِهِ فَإِنْ خُيِّرَ بَيْنَ إِسْلَامِهِ وَبَيْنَ ضَرْبِ عُنُقِهِ فَلْيَمْدُدْ عُنُقَهُ ثَكِلَتْهُ أُمُّهُ فَلَا دُنْيَا وَلَا آخِرَةَ بَعْدَ ذَهَابِ إِسْلَامِهِ (دِينِهِ) )) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ مِسْعَرٍ إِلَّا فَيْضٌ
مناقب كا بيان
باب
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’امام اور حاکم قریش سے ہوں گے ان میں سے نیک لوگ نیکوں کے اور بُرے لوگ بُروں کے حاکم ہوں گے اور ہر ایک کا حق ہے تم حقدار کو اس کا حق ادا کرو اگرچہ تم پر ایک غلام حبشی کان کٹا امیر بنا دیا جائے تو اس کا حکم بھی سنو اور تسلیم کرو جب تک تمہیں تمہارے اسلام میں اختیار نہ دیا جائے۔ اگر کسی کو اس کے اسلام اور گردن اڑانے میں اختیار دیا جائے تو وہ اپنی گردن بڑھا دے اس کی ماں اسے گم پائے کیونکہ اسلام جانے کے بعد اس کی دنیا رہے گی نہ ہی آخرت رہے گی۔‘‘
تشریح :
(۱) خلیفۃ المسلمین کے انتخاب کے لیے اس کا قریشی ہونا لازم ہے۔ اور خلیفہ کے انتخاب کے وقت قریشی کو ترجیح دی جائے گی۔ خواہ علم وزہد اور تقویٰ میں دیگر لوگ افضل ہوں۔
(۲) امیر اور حاکم کے صالح ہونے کے لیے عوام الناس کا صالح ہونا لازم ہے۔ عوام نیکو کار ہوں تو نیک حاکم نصیب ہوتا ہے۔
(۳) امیر کی اتباع لازم ہے خواہ وہ گھٹیا حسب ونسب کا مالک اور غلام ہی ہو۔
(۴) امیر وحاکم کی نافرمانی تب جائز ہے جب وہ کفر وشرک کا اعلانیہ مرتکب ہو اور ایسے کفریہ اعمال کرے جو اسے دائرہ اسلام سے خارج کردیں صرف عبادات ومعاملات میں سستی اور فسق وفجور سے اس کی نافرمانی جائز نہیں ہوتی۔
تخریج :
صحیح الجامع، رقم : ۲۷۵۷۔ مجمع الزوائد: ۴؍۱۹۲۔
(۱) خلیفۃ المسلمین کے انتخاب کے لیے اس کا قریشی ہونا لازم ہے۔ اور خلیفہ کے انتخاب کے وقت قریشی کو ترجیح دی جائے گی۔ خواہ علم وزہد اور تقویٰ میں دیگر لوگ افضل ہوں۔
(۲) امیر اور حاکم کے صالح ہونے کے لیے عوام الناس کا صالح ہونا لازم ہے۔ عوام نیکو کار ہوں تو نیک حاکم نصیب ہوتا ہے۔
(۳) امیر کی اتباع لازم ہے خواہ وہ گھٹیا حسب ونسب کا مالک اور غلام ہی ہو۔
(۴) امیر وحاکم کی نافرمانی تب جائز ہے جب وہ کفر وشرک کا اعلانیہ مرتکب ہو اور ایسے کفریہ اعمال کرے جو اسے دائرہ اسلام سے خارج کردیں صرف عبادات ومعاملات میں سستی اور فسق وفجور سے اس کی نافرمانی جائز نہیں ہوتی۔