معجم صغیر للطبرانی - حدیث 860

كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابٌ حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ أَحْمَدَ التُّجِيبِيُّ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو طَاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمٍ الصَّوَّافُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَا غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَا فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ)) قِيلَ: وَمَنِ الْغُرَبَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ((الَّذِينَ يُصْلِحُونَ إِذَا فَسَدَ النَّاسُ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ إِلَّا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمٍ الصَّوَّافُ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 860

مناقب كا بيان باب سیّدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام غریب حالت میں شروع ہوا اور عنقریب اسی طرح لوٹ جائے گا جس طرح شروع ہوا تو غریبوں کے لیے خوشی ہو‘‘ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ غریب کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’جو لوگوں کی اصلاح کردیتے ہیں جب لوگ بگاڑ پیدا کریں۔‘‘
تشریح : (۱) ابتداء میں دین اسلام غیر معروف اور اجنبی تھا، لوگ اس کی تعلیمات سے ناآشنا اور اہل اسلام کو ایک نئے دین کا پیروکار سمجھتے تھے، پھر اسلام جہان عالم میں پوری تابانیوں سے جلوہ افروز ہوا اور تمام دنیا میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔ لیکن وقت گزرنے پر مسلمانوں نے اسلام سے پہلو تہی برتی تو اسلام پھر غیر معروف ہونا شروع ہوا اور قربِ قیامت یہ مزید اجنبی ہوگا۔ اور اس پر عمل کرنے والے انتہائی قلیل ہوں گے لیکن یہی قلیل لوگ اصل میں امت کا سرمایہ ہیں۔ (۲) دین سے وابستہ لوگ ہی خوش قسمت اور ہر زمانے کے معزز ومحترم ہیں اور ان کے لیے جنت ربّ تعالیٰ کی رضامندی کی خوشخبری ہے۔ (۳) دنیا داروں کی جاہ وحشمت اور رنگینیاں دیکھ کر دین سے منحرف ہونا، اسلامی تعلیمات ونظام زندگی سے احتراز کرنا حماقت اور باعثِ نقصان ہے۔ (۴) محبانِ اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ فتنہ وفساد کے وقت صلح جوئی کا کام کرتے ہیں اور فتنوں کا سد باب کریں گے۔ خود فتنوں میں ملوث لوگ اس مقام ومرتبے کے مستحق نہیں۔
تخریج : مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان الاسلام، رقم : ۱۴۶۔ سنن ترمذي، رقم : ۲۶۲۹۔ مجمع الزوائد: ۷؍۲۷۸۔ (۱) ابتداء میں دین اسلام غیر معروف اور اجنبی تھا، لوگ اس کی تعلیمات سے ناآشنا اور اہل اسلام کو ایک نئے دین کا پیروکار سمجھتے تھے، پھر اسلام جہان عالم میں پوری تابانیوں سے جلوہ افروز ہوا اور تمام دنیا میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔ لیکن وقت گزرنے پر مسلمانوں نے اسلام سے پہلو تہی برتی تو اسلام پھر غیر معروف ہونا شروع ہوا اور قربِ قیامت یہ مزید اجنبی ہوگا۔ اور اس پر عمل کرنے والے انتہائی قلیل ہوں گے لیکن یہی قلیل لوگ اصل میں امت کا سرمایہ ہیں۔ (۲) دین سے وابستہ لوگ ہی خوش قسمت اور ہر زمانے کے معزز ومحترم ہیں اور ان کے لیے جنت ربّ تعالیٰ کی رضامندی کی خوشخبری ہے۔ (۳) دنیا داروں کی جاہ وحشمت اور رنگینیاں دیکھ کر دین سے منحرف ہونا، اسلامی تعلیمات ونظام زندگی سے احتراز کرنا حماقت اور باعثِ نقصان ہے۔ (۴) محبانِ اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ فتنہ وفساد کے وقت صلح جوئی کا کام کرتے ہیں اور فتنوں کا سد باب کریں گے۔ خود فتنوں میں ملوث لوگ اس مقام ومرتبے کے مستحق نہیں۔