كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابٌ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَبُو مُسْلِمٍ الْكَجِّيُّ، بِمَكَّةَ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَثَمَانِينَ وَمِائَتَيْنِ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ عَوْذِ اللَّهِ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي صِدِّيقٍ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَيْتٍ فِيهِ نَفَرٌ مِنْ قُرَيْشٍ فَأَخَذَ بِعِضَادَتَيِ الْبَابِ ثُمَّ قَالَ: ((هَلْ فِي الْبَيْتِ إِلَّا قُرَشِيٌّ؟)) قَالُوا: لَا، إِلَّا ابْنُ أُخْتٍ لَنَا فَقَالَ: ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ لَا يَزَالُ فِي قُرَيْشٍ مَا إِذَا اسْتُرْحِمُوا رَحِمُوا وَإِذَا حَكَمُوا عَدَلُوا وَإِذَا أَقْسَمُوا أَقْسَطُوا وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ)) لَا يُرْوَى عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ تَفَرَّدَ بِهِ مُعَاذُ بْنُ عَوْذِ اللَّهِ
مناقب كا بيان
باب
سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھر پر کھڑے ہوئے جس میں قریش کی ایک جماعت تھی تو آپ نے دروازے کی دونوں چوکھٹیں پکڑیں اور کہا: ’’کیا قریش کے بغیر کوئی گھر میں ہے؟‘‘ انھوں نے کہا اور کوئی نہیں ہے مگر ایک ان کا بھانجا تو آپ نے فرمایا: ’’کسی قوم کا بھانجا بھی انہی میں سے ہوتا ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’یہ معاملہ ہمیشہ قریش میں رہے گا جب تک کہ اگر ان سے رحم کا مطالبہ کیا جاتا تو وہ رحم کرتے رہے اور جب تک وہ فیصلہ کریں گے تو انصاف سے کریں گے۔ اگر تقسیم کریں گے تو انصاف سے کریں گے اور جو ان میں سے یہ کام نہ کرے گا تو اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘
تشریح :
(۱) معلوم ہوا عدل و انصاف رحم و کرم و بادشاہت کی اساس ہیں جس معاشرے میں ظلم و زیادتی اور ناانصافی آجائے وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔
(۲) قریش کی حکومت و بادشاہت کی بقا ہی عدل و انصاف اور رحم و کرم سے مشروط تھی۔
(۳) کسی قوم یا خاندان کا بھانجا و بھانجی انہیں میں سے شمار ہو گا۔
(۴) رحم و کرم اور عدل و انصاف کو ترک کرنا اپنے آپ کو اللہ فرشتوں، اور تمام لوگوں کی لعنت کا مستحق بنا لینے کے مترادف ہے۔
تخریج :
مسند احمد: ۴؍۳۹۶۔ صحیح ترغیب وترهیب، رقم : ۲۲۵۸۔ مجمع الزوائد: ۵؍۹۴۔
(۱) معلوم ہوا عدل و انصاف رحم و کرم و بادشاہت کی اساس ہیں جس معاشرے میں ظلم و زیادتی اور ناانصافی آجائے وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔
(۲) قریش کی حکومت و بادشاہت کی بقا ہی عدل و انصاف اور رحم و کرم سے مشروط تھی۔
(۳) کسی قوم یا خاندان کا بھانجا و بھانجی انہیں میں سے شمار ہو گا۔
(۴) رحم و کرم اور عدل و انصاف کو ترک کرنا اپنے آپ کو اللہ فرشتوں، اور تمام لوگوں کی لعنت کا مستحق بنا لینے کے مترادف ہے۔