معجم صغیر للطبرانی - حدیث 848

كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْمَنَاطِقِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو زُهَيْرٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْبَقَّالِ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى﴾ [الشورى: 23] قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ بَطْنٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَّا وَلَهُ فِيهِمْ أُمٌّ حَتَّى كَانَتْ لَهُ فِي هُذَيْلٍ أُمٌّ فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾ [الأنعام: 90] إِلَّا أَنْ تَحْفَظُونِي فِي قَرَابَتِي وَلَا تَخُونُونِي وَلَا تُكَذِّبُونِي وَلَا تُؤْذُونِي " لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْبَقَّالِ إِلَّا أَبُو زُهَيْرٍ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 848

مناقب كا بيان باب سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى ﴾ ’’کہہ دیجیے میں تم سے قرابت میں دوستی رکھنے کے علاوہ اس پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا‘‘ کے متعلق کہتے ہیں قریش کا کوئی بھی قبیلہ نہیں تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں نہ ہو حتیٰ کہ ہذیل میں بھی آپ کی ایک والدہ تھیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا مگر اتنا چاہتا ہوں کہ تم میری قرابت داری کی حفاظت کرو اور مجھ سے نہ خیانت کرو اور نہ مجھے جھٹلاؤ نہ تکلیف دو۔‘‘
تشریح : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان رشتہ داری کا تعلق تھا۔ جس کی بدولت ان سے قرابت کا لحاظ کرنے اور دعوت وتبلیغ کو اختیار کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ میں تم سے اس وعظ ونصیحت پر کوئی اجرت تو طلب نہیں کرتا لیکن قرابت وتعلق داری کی وجہ سے اس کار خیر میں تم میرے دست وبازو تو بنو، میری حفاظت کا فریضہ تو سر انجام دو اور میرے ہم خیال بن کر میرے ممد ومعاون بنو نہ کہ ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے میری تکذیب کرو اور مجھے تکلیف پہنچانے کا باعث بنو۔
تخریج : بخاري، کتاب المناقب، باب قول الله تعالٰی یا ایها الناس۔ سنن ترمذي، کتاب تفسیر القرآن، باب سورة حم عسق، رقم : ۳۲۵۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان رشتہ داری کا تعلق تھا۔ جس کی بدولت ان سے قرابت کا لحاظ کرنے اور دعوت وتبلیغ کو اختیار کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ میں تم سے اس وعظ ونصیحت پر کوئی اجرت تو طلب نہیں کرتا لیکن قرابت وتعلق داری کی وجہ سے اس کار خیر میں تم میرے دست وبازو تو بنو، میری حفاظت کا فریضہ تو سر انجام دو اور میرے ہم خیال بن کر میرے ممد ومعاون بنو نہ کہ ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے میری تکذیب کرو اور مجھے تکلیف پہنچانے کا باعث بنو۔