كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ اللِّحْيَانِيُّ الْعَكَّاوِيُّ بِمَدِينَةِ عَكَّاءَ سَنَةَ خَمْسٍ وَسَبْعِينَ وَمِائَتَيْنِ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ الْعَسْقَلَانِيُّ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ الْيَشْكُرِيُّ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ عَاصِمٍ امْرَأَةُ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ السُّلَمِيِّ قَالَتْ: كُنَّا عِنْدَ عُتْبَةَ أَرْبَعَ نِسْوَةٍ مَا مِنَّا امْرَأَةٌ إِلَّا وَهِيَ تَجْتَهِدُ فِي الطِّيبِ لِتَكُونَ أَطْيَبَ مِنْ صَاحِبَتِهَا وَمَا يَمَسُّ عُتْبَةُ الطِّيبَ إِلَّا يَمَسُّ دُهْنًا يَمْسَحُ بِهِ لِحْيَتِهِ وَهُوَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنَّا وَكَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى النَّاسِ قَالُوا: مَا شَمِمْنَا رِيحًا أَطْيَبَ مِنْ رِيحِ عُتْبَةَ فَقُلْتُ لَهُ يَوْمًا: إِنَّا لَنَجْتَهِدُ فِي الطِّيبِ وَلَأَنْتَ أَطْيَبُ مِنَّا رِيحًا فَمِمَّ ذَاكَ؟ فَقَالَ: أَخَذَنِي الشَّرَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَيْهِ فَأَمَرَنِي أَنْ أَتَجَرَّدَ فَتَجَرَّدْتُ وَقَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَلْقَيْتُ ثَوْبِي عَلَى فَرْجِي فَنَفَثَ فِي يَدِهِ عَلَى ظَهْرِي وَبَطْنِي فَعَقَبَ بِي هَذَا الطِّيبُ مِنْ يَوْمَئِذِ لَمْ يَرْوِهِ عَنْ وَرْقَاءَ إِلَّا آدَمُ
مناقب كا بيان
باب
عتبہ بن فرقد سلمی کی عورت ام عاصم کہتی ہے کہ ہم چار عورتیں عتبہ کے پاس تھیں اور ہم میں سے ہر ایک یہ کوشش کرتی کہ وہ دوسری سے زیادہ خوشبو دار ہو اور عتبہ نے کبھی خوشبو نہیں لگائی مگر صرف داڑھی کو تیل لگاتے اور وہ ہم سے زیادہ خوشبودار ہوتے جب وہ لوگوں کی طرف جاتے تو لوگ کہتے کہ عتبہ کی خوشبو سے زیادہ اچھی خوشبو ہم نے نہیں دیکھی تو میں نے ایک دن ان سے کہا کہ ہم خوشبو لگاتی ہیں بہت محنت کرتی ہیں لیکن پھر بھی آپ کی خوشبو ہم سے بہتر ہے۔ یہ بات کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خارش ہوگئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر اس کی شکایت کی آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں کپڑے اتار دوں تو میں کپڑے اتار کر اپنی شرمگاہ پر ایک کپڑا ڈال کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا آپ نے میری پیٹھ اور پیٹ پر دم کیا اس دن سے وہ خوشبو اب تک میرے جسم میں باقی ہے۔‘‘
تخریج : الاحاد والمثانی، رقم : ۱۳۸۷۔ مجمع الزوائد: ۸؍۲۸۲۔ طبراني کبیر: ۱۷؍۳۲۹۔ قال الهیثمي هذا حدیث ضعیفٌ۔