كِتَابُ الْعِلْمِ بَابٌ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَبَّاسِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ شُعَيْبٍ الْكَيْسَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ الرَّصَاصِيُّ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنِّي لَأَعْلَمُ شَجَرَةً مَثَلُهَا مَثَلُ الرَّجُلِ الْمُؤْمِنِ)) فَقُلْتُ وَأَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ: هِيَ النَّخْلَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((هِيَ النَّخْلَةُ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنِ الْمَسْعُودِيِّ إِلَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ
علم کا بیان
باب
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ایک درخت کو جانتا ہوں جس کی مثال مومن کی طرح ہے‘‘ تو میں نے دل میں سوچا اور میں سب سے چھوٹا تھا کہ وہ کھجور ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ کھجور ہے۔‘‘
تشریح :
(۱) کھجور مسلمانوں کا مذہبی درخت ہے اپنی مضبوطی اور شیرینی کے لحاظ سے یہ مومن شخص کے مماثل ہے۔
(۲) اس حدیث میں عبداللہ بن عمر کی ذکاوت وذہانت کا بیان ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کو سمجھ گئے لیکن اس کا جواب حاضرین کے سامنے پیش نہ کیا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے پر کہا کہ یہی خیال میرے ذہن میں تھا۔
(۳) علم و تعلّم کی محافل میں حیاء مانع نہیں آنا چاہیے۔
(۴) ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب میں نے اپنے باپ کو بتایا کہ اس کا جواب میرے ذہن میں آگیا تھا تو میرے باپ نے کہا اگر تو اس وقت جواب دے دیتا تو یہ میرے لیے فلاں فلاں چیز سے بہتر ہوتا۔ (دیکھئے بخاري، رقم: ۱۳۱)
تخریج :
بخاري، کتاب العلم، باب الحیاء فی العلم، رقم : ۱۳۱۔ مسلم، کتاب صفات المنافقین باب مثل المؤمن مثل النخلة، رقم : ۲۸۱۱۔
(۱) کھجور مسلمانوں کا مذہبی درخت ہے اپنی مضبوطی اور شیرینی کے لحاظ سے یہ مومن شخص کے مماثل ہے۔
(۲) اس حدیث میں عبداللہ بن عمر کی ذکاوت وذہانت کا بیان ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کو سمجھ گئے لیکن اس کا جواب حاضرین کے سامنے پیش نہ کیا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے پر کہا کہ یہی خیال میرے ذہن میں تھا۔
(۳) علم و تعلّم کی محافل میں حیاء مانع نہیں آنا چاہیے۔
(۴) ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب میں نے اپنے باپ کو بتایا کہ اس کا جواب میرے ذہن میں آگیا تھا تو میرے باپ نے کہا اگر تو اس وقت جواب دے دیتا تو یہ میرے لیے فلاں فلاں چیز سے بہتر ہوتا۔ (دیکھئے بخاري، رقم: ۱۳۱)