معجم صغیر للطبرانی - حدیث 788

كِتَابُ الفِتَنِ بَابٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُرَاعَا بْنِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلِ الْمُزَنِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ ابْنِ عَائِشَةَ التَّيْمِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: اسْتَقْبَلَ مَطْلَعَ الشَّمْسِ فَقَالَ: ((مِنْ هَا هُنَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ وَمِنْ هَا هُنَا الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَالْفَدَّادُونَ وَغِلَظُ الْقُلُوبِ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ إِلَّا حَمَّادٌ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 788

فتن كا بيان باب سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سورج کے مطلع کی طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا: ’’یہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا یہاں زلزلے،فتنے، گھوڑوں اور اون والے جانوروں کے مالک اور سخت دل لوگ سامنے آئیں گے۔‘‘
تشریح : (۱) امام خطابی کہتے ہیں نجد بلند زمین کو کہتے ہیں اور مدینہ کے مشرق میں نجد عراق کا علاقہ اور اس کے مضافات ہیں۔ (فتح الباری: ۲؍۱۰۱) (۲) یہ حدیث دلیل ہے کہ سر زمین عراق فتنوں کا گڑھ ہے اور اسی سر زمین سے اسلام کے خلاف سازشیں تیار ہوتی آئی ہیں اور امت کے ابتدائی فتنوں کا آغاز اسی سر زمین سے جاری ہوا تھا اور ہر باطل فرقے کو اسی سرزمین سے قیادت اور سرپرستی حاصل ہوتی آئی ہے۔ (۳) اہل عراق باقی لوگوں کی نسبت زیادہ سرکشی، زیادہ متعصب اور سخت دل والے ہیں۔ جن سے شر کی نسبت خیر وبرکت کی امید کم کی جاسکتی ہے۔
تخریج : بخاري، کتاب الاستسقاء، باب ما قیل فی الزلازل، رقم : ۱۰۳۷۔ مسلم، کتاب الفتن، باب الفتنة من المشرق، رقم : ۲۹۰۵۔ (۱) امام خطابی کہتے ہیں نجد بلند زمین کو کہتے ہیں اور مدینہ کے مشرق میں نجد عراق کا علاقہ اور اس کے مضافات ہیں۔ (فتح الباری: ۲؍۱۰۱) (۲) یہ حدیث دلیل ہے کہ سر زمین عراق فتنوں کا گڑھ ہے اور اسی سر زمین سے اسلام کے خلاف سازشیں تیار ہوتی آئی ہیں اور امت کے ابتدائی فتنوں کا آغاز اسی سر زمین سے جاری ہوا تھا اور ہر باطل فرقے کو اسی سرزمین سے قیادت اور سرپرستی حاصل ہوتی آئی ہے۔ (۳) اہل عراق باقی لوگوں کی نسبت زیادہ سرکشی، زیادہ متعصب اور سخت دل والے ہیں۔ جن سے شر کی نسبت خیر وبرکت کی امید کم کی جاسکتی ہے۔