كِتَابُ الْعِلْمِ بَابٌ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى السِّجِسْتَانِيُّ، بِدِمَشْقَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ كَثِيرٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، مَوْلَى مُزَيْنَةَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤَسَاءَ جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ صَفْوَانَ إِلَّا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ مَوْلَى مُزَيْنَةَ
علم کا بیان
باب
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ علم لوگوں سے چھین کر قبض نہیں کرے گا بلکہ علم کو علماء کے فوت کرنے سے اٹھائے گا جب کوئی عالم نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو مفتی بنا لیں گے تو ان سے جب مسئلہ پوچھا جائے تو وہ بغیر علم فتویٰ دیں گے وہ خود گمراہ ہوں گے اور اوروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
تشریح :
(۱) اللہ تبارک وتعالیٰ انتہائی دانا ہیں اور وہ انسانوں پر ظلم کا ارادہ نہیں رکھتے اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ چاہے تو ہر کام اس کے اشارہ سے ممکن ہے لیکن وہ ہر کام کو اصول وضوابط سے پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے یہی صورت حال علم کی ہے کہ کتاب وسنت کا علم انسانوں کی رشد وہدایت کا منبع ہے اور اہل علم لوگوں کی اصلاح پر مامور ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ بتدریج علم اٹھتا جائے گا علماء فقہاء فوت ہوتے جائیں گے۔ یوں علم کی قلت پر جاہل مفتیان جلوہ افروز ہوں گے اور جہالت ولاعلمی کی وجہ سے غلط نظریات واعتقادات کی تشہیر کر کے لوگون کو گمراہ کریں گے اور یہی گمراہی دین سے دوری اور علم کا زوال قیامت برپا ہونے کا پیش خیمہ ہوگی۔
(۲) ہر صاحب علم یا مقالہ فتویٰ پر فائز عالم کی بات من وعن تسلیم کرنا لازم نہیں بلکہ تحقیق کے بعد وہ بات یا فتویٰ کتاب وسنت کے موافق ہو تو اسے تسلیم کیا جائے گا۔
تخریج :
بخاري، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم، رقم : ۱۰۰۔ مسلم، کتاب العلم، باب رفع العلم، رقم : ۲۶۷۳۔
(۱) اللہ تبارک وتعالیٰ انتہائی دانا ہیں اور وہ انسانوں پر ظلم کا ارادہ نہیں رکھتے اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ چاہے تو ہر کام اس کے اشارہ سے ممکن ہے لیکن وہ ہر کام کو اصول وضوابط سے پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے یہی صورت حال علم کی ہے کہ کتاب وسنت کا علم انسانوں کی رشد وہدایت کا منبع ہے اور اہل علم لوگوں کی اصلاح پر مامور ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ بتدریج علم اٹھتا جائے گا علماء فقہاء فوت ہوتے جائیں گے۔ یوں علم کی قلت پر جاہل مفتیان جلوہ افروز ہوں گے اور جہالت ولاعلمی کی وجہ سے غلط نظریات واعتقادات کی تشہیر کر کے لوگون کو گمراہ کریں گے اور یہی گمراہی دین سے دوری اور علم کا زوال قیامت برپا ہونے کا پیش خیمہ ہوگی۔
(۲) ہر صاحب علم یا مقالہ فتویٰ پر فائز عالم کی بات من وعن تسلیم کرنا لازم نہیں بلکہ تحقیق کے بعد وہ بات یا فتویٰ کتاب وسنت کے موافق ہو تو اسے تسلیم کیا جائے گا۔