كِتَابُ الْعِلْمِ بَابٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى الْغَزِّيُّ، بِغَزَّةَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْهَيْثَمِ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ سَيَّارٍ، عَنْ عَزَّةَ بِنْتِ عِيَاضٍ، عَنْ جَدِّهَا أَبِي قِرْصَافَةَ جَنْدَرَةَ بْنِ خَيْشَنَةَ اللَّيْثِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا فَرُبَّ حَامِلِ عِلْمٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْهِنَّ الْقَلْبُ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَمُنَاصَحَةُ الْوُلَاةِ وَلُزُومُ الْجَمَاعَةِ " لَا يُرْوَى عَنْ أَبِي قِرْصَافَةَ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ: وَبَلَغَنِي أَنَّ ابْنًا لِأَبِي قِرْصَافَةَ أَسَرَتْهُ الرُّومُ فَكَانَ أَبُو قِرْصَافَةَ يُنَادِيهُ مِنْ سُورِ عَسْقَلَانَ فِي وَقْتِ كُلِّ صَلَاةٍ: يَا فُلَانُ الصَّلَاةَ يَا فُلَانُ الصَّلَاةَ فَيَسْمَعُهُ فَيُجِيبُهُ وَبَيْنَهُمَا عَرْضُ الْبَحْرِ
علم کا بیان
باب
سیّدنا ابوقرصافہ جندرہ بن خیشنہ لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اس آدمی کو تروتازہ رکھے جو میری بات کو سن کر یاد رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔ بہت سارے علم کے حامل اپنے سے زیادہ جاننے والوں تک پہنچاتے ہیں تین چیزیں ہیں کہ دل کو ان پر خیانت نہیں کرنی چاہیے ایک اخلاص عمل اللہ کے لیے، حاکموں سے خیر خواہی اور جماعت کے ساتھ لازم رہنا۔‘‘
تشریح :
(۱) اس حدیث میں حدیثوں کو یاد کرنے والے محدثین وعلماء کے حق میں دعا ہے کہ اس علم کے نور کی وجہ سے ان کے چہرے تروتازہ اور ہشاش بشاش رہیں۔ اس حدیث کے مصداق علماء کے چہرے یقینا تازگی وشادابی سے بہرہ ور ہوتے اور قلت ساز وسامان کے باوجود نورانیت سے معمور ہوتے ہیں۔ چنانچہ ذہنی آسودگی، قلبی اطمینان اور چہرے کی حلاوت کا ذریعہ حصول علم کتاب وسنت ہے۔
(۲) حدیث کا علم رکھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے آگے پہنچائے۔ نیز ہر صاحب علم فقیہ تو نہیں، لیکن اس کی تبلیغ کی وجہ سے یہ علم ایسے فقہاء تک پہنچ سکتا ہے جو احادیث سے صحیح مسائل اخذ کرسکتے ہوں۔
(۳) دعوت دین اور تبلیغ کتاب وسنت سے کوئی چیز یا مجبوری آڑ نہ بنے بلکہ دعوت دین سے وابستہ علماء کو یہ عمل جاری رکھنا چاہیے۔
(۴) تین بنیادی اوصاف سے ہر داعی کو متصف ہونا چاہیے: (۱) اخلاص عمل۔ (۲) ائمہ وارباب اختیار کو وعظ ونصیحت۔ (۳) جماعت (یعنی خلیفۃ المسلمین) کا التزام۔
تخریج :
سنن ترمذي، کتاب العلم باب الحث علی تبلیغ السماع، رقم : ۲۶۵۸۔ سنن ابن ماجة، کتاب المقدمة، باب من بلغ علماء، رقم : ۲۳۰ قال الشیخ الالباني صحیح۔ معجم الاوسط، رقم : ۵۱۷۹۔
(۱) اس حدیث میں حدیثوں کو یاد کرنے والے محدثین وعلماء کے حق میں دعا ہے کہ اس علم کے نور کی وجہ سے ان کے چہرے تروتازہ اور ہشاش بشاش رہیں۔ اس حدیث کے مصداق علماء کے چہرے یقینا تازگی وشادابی سے بہرہ ور ہوتے اور قلت ساز وسامان کے باوجود نورانیت سے معمور ہوتے ہیں۔ چنانچہ ذہنی آسودگی، قلبی اطمینان اور چہرے کی حلاوت کا ذریعہ حصول علم کتاب وسنت ہے۔
(۲) حدیث کا علم رکھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے آگے پہنچائے۔ نیز ہر صاحب علم فقیہ تو نہیں، لیکن اس کی تبلیغ کی وجہ سے یہ علم ایسے فقہاء تک پہنچ سکتا ہے جو احادیث سے صحیح مسائل اخذ کرسکتے ہوں۔
(۳) دعوت دین اور تبلیغ کتاب وسنت سے کوئی چیز یا مجبوری آڑ نہ بنے بلکہ دعوت دین سے وابستہ علماء کو یہ عمل جاری رکھنا چاہیے۔
(۴) تین بنیادی اوصاف سے ہر داعی کو متصف ہونا چاہیے: (۱) اخلاص عمل۔ (۲) ائمہ وارباب اختیار کو وعظ ونصیحت۔ (۳) جماعت (یعنی خلیفۃ المسلمین) کا التزام۔