معجم صغیر للطبرانی - حدیث 661

كِتَابُ الأَدَبِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلَامَةَ أَبُو جَعْفَرٍ الطَّحَاوِيُّ الْمِصْرِيُّ الْفَقِيهُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ وَهْبُ اللَّهِ بْنُ رَاشِدٍ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ قَالَتْ: مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يُرَخِّصُ فِي شَيْءٍ مِنَ الْكَذِبِ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا أَعُدُّهُنَّ كَذِبًا: الرَّجُلُ يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ يُرِيدُ بِهِ الْإِصْلَاحَ وَالرَّجُلُ يَقُولُ الْقَوْلَ فِي الْحَرْبِ وَالرَّجُلُ يُحَدِّثُ امْرَأَتَهُ وَالْمَرْأَةُ تُحَدِّثُ زَوْجَهَا " لَمْ يَرْوِهِ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ إِلَّا وَهْبُ اللَّهِ بْنُ رَاشِدٍ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 661

ادب كا بيان باب سیّدہ اُمّ کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی کسی جھوٹ میں اجازت دیتے نہیں دیکھا مگر تین چیزوں میں۔ نبی علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’میں ان کو جھوٹ نہیں سمجھتا ایک وہ شخص جو اس کے ساتھ لوگوں میں اصلاح کرتا ہو، ایک وہ آدمی جو جنگ میں کوئی بات کرتا ہے تیسرا یہ کہ خاوند بیوی ایک دوسرے سے باتیں کریں۔‘‘
تشریح : تین طرح کا جھوٹ بولنا جائز ہے۔ اس کے سوا جھوٹ کی تمام اقسام حرام ہیں۔ (۱) فریقین میں صلح کروانے کے لیے کہ ہر فریق کی طرف سے فریق ثانی کو اچھی چیزیں اور اچھے خیالات پہنچائے کہ وہ دونوں فریقین مانوس ہو کر صلح کے لیے تیار ہوجائیں۔ (۲) جنگ میں دشمن کو دھوکا دینے کے لیے اور جنگی چال کے طور پر جھوت بولنا تعداد غلط بیان کرنا، اصل اہداف نہ بتانا، پیش قدمی کی سمت غلط بیانی کرنا، نیز ایسی تدابیر جس سے دشمن کو اپنی حرکات سے غافل رکھا جاسکے اور اسے زیادہ سے زیادہ نقصان اور اپنی زیادہ سے زیادہ حفاظت کی جاسکے، اس مقصد کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔ (۳) خاوند کا بیوی سے اور بیوی کا خاوند سے جھوٹ بولنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے مودت اور ایسے وعدہ کرسکتے ہیں جس کو عمل میں لانے کا ارادہ نہ ہو۔ لیکن باہمی حقوق ادا نہ کرنے کے لیے دھوکا دینا یا زوجین میں سے کسی ایک کا جھوٹ بول کر حق غصب کرنا بالاجماع حرام ہے۔ ( شرح النووي: ۸؍۴۲۶)
تخریج : بخاري، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب، رقم : ۲۶۹۲۔ مسلم، کتاب البر والصلة، باب تحریم الکذب، رقم : ۲۶۰۵۔ سنن ابي داود، رقم : ۴۹۲۱۔ سنن ترمذي، رقم : ۱۹۳۸۔ تین طرح کا جھوٹ بولنا جائز ہے۔ اس کے سوا جھوٹ کی تمام اقسام حرام ہیں۔ (۱) فریقین میں صلح کروانے کے لیے کہ ہر فریق کی طرف سے فریق ثانی کو اچھی چیزیں اور اچھے خیالات پہنچائے کہ وہ دونوں فریقین مانوس ہو کر صلح کے لیے تیار ہوجائیں۔ (۲) جنگ میں دشمن کو دھوکا دینے کے لیے اور جنگی چال کے طور پر جھوت بولنا تعداد غلط بیان کرنا، اصل اہداف نہ بتانا، پیش قدمی کی سمت غلط بیانی کرنا، نیز ایسی تدابیر جس سے دشمن کو اپنی حرکات سے غافل رکھا جاسکے اور اسے زیادہ سے زیادہ نقصان اور اپنی زیادہ سے زیادہ حفاظت کی جاسکے، اس مقصد کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔ (۳) خاوند کا بیوی سے اور بیوی کا خاوند سے جھوٹ بولنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے مودت اور ایسے وعدہ کرسکتے ہیں جس کو عمل میں لانے کا ارادہ نہ ہو۔ لیکن باہمی حقوق ادا نہ کرنے کے لیے دھوکا دینا یا زوجین میں سے کسی ایک کا جھوٹ بول کر حق غصب کرنا بالاجماع حرام ہے۔ ( شرح النووي: ۸؍۴۲۶)