معجم صغیر للطبرانی - حدیث 653

كِتَابُ الأَدَبِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ فِيلٍ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ مَاهَانَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ أَبِي نَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا سَبَقَ إِلَّا فِي خُفٍّ أَوْ حَافِرٍ أَوْ نَصْلٍ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو إِلَّا مُصْعَبُ بْنُ مَاهَانَ وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ مَشْهُورٌ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 653

ادب كا بيان باب سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انعامِ مسابقت یا تو اونٹوں کی دوڑ یا گھڑ دوڑ یا تیر اندازی میں ہوتی ہے۔‘‘
تشریح : خف سے مراد اونٹ، حافہ سے مراد گھوڑا اور نصل سے مراد تیر ہے۔ یعنی اونٹ والے، گھوڑے والے اور تیر انداز کے درمیان مقابلہ جائز ہے۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ انعام رکھ کر مقابلہ بازی جائز ہے اور اگر انعام کا اہتمام کرنے والا مقابلہ بازوں کے سوا ہو یعنی امام وحاکم مقابلہ جیتنے والے کے لیے انعام منعقد کرتا ہے یہ صورت بلا خلاف جائز وحلال ہے اور اگر انعام کا انعقاد کسی ایک فریق کی طرف سے ہو تب یہ حلال نہیں کیونکہ یہ جوئے کی قسم ہے۔ ظاہر حدیث کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقابلہ بازی پر انعام کی یہی تین صورتیں مشروع ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ نے انہی تین چیزوں پر جواز موقوف کیا ہے اور امام عطاء رحمہ اللہ نے ہر کھیل پر اسی کی رخصت دی ہے۔ (سبل السلام: ۶؍۲۳۵) (۲) موجودہ دور میں ایسے ٹورنامنٹ کا انعقاد جس میں تمام ٹیمیں انٹری جمع کراتی ہیں۔ پھر جیتنے والی ٹیم کو وہ رقم انعام کی شکل میں تھما دی جاتی ہے قمار بازی وجوا ہے جو سراسر حرام ہے۔ (۳) دو ٹیموں کو برابر رقم جمع کرا کر کھیل شروع کرنا اور آخر میں جمع شدہ رقم جیتنے والی ٹیم کو دینا جوا ہے جس کی حرمت کتاب وسنت سے ثابت ہے۔
تخریج : سنن ابي داود، کتاب الجهاد، باب فی السبق، رقم : ۲۵۷۴۔ سنن ترمذي، کتاب الجهاد باب الرهان والسبق، رقم : ۱۷۰۰ قال الشیخ الالباني صحیح۔ سنن نسائي، رقم: ۳۵۸۵۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۲۸۷۸۔ خف سے مراد اونٹ، حافہ سے مراد گھوڑا اور نصل سے مراد تیر ہے۔ یعنی اونٹ والے، گھوڑے والے اور تیر انداز کے درمیان مقابلہ جائز ہے۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ انعام رکھ کر مقابلہ بازی جائز ہے اور اگر انعام کا اہتمام کرنے والا مقابلہ بازوں کے سوا ہو یعنی امام وحاکم مقابلہ جیتنے والے کے لیے انعام منعقد کرتا ہے یہ صورت بلا خلاف جائز وحلال ہے اور اگر انعام کا انعقاد کسی ایک فریق کی طرف سے ہو تب یہ حلال نہیں کیونکہ یہ جوئے کی قسم ہے۔ ظاہر حدیث کی رو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقابلہ بازی پر انعام کی یہی تین صورتیں مشروع ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ نے انہی تین چیزوں پر جواز موقوف کیا ہے اور امام عطاء رحمہ اللہ نے ہر کھیل پر اسی کی رخصت دی ہے۔ (سبل السلام: ۶؍۲۳۵) (۲) موجودہ دور میں ایسے ٹورنامنٹ کا انعقاد جس میں تمام ٹیمیں انٹری جمع کراتی ہیں۔ پھر جیتنے والی ٹیم کو وہ رقم انعام کی شکل میں تھما دی جاتی ہے قمار بازی وجوا ہے جو سراسر حرام ہے۔ (۳) دو ٹیموں کو برابر رقم جمع کرا کر کھیل شروع کرنا اور آخر میں جمع شدہ رقم جیتنے والی ٹیم کو دینا جوا ہے جس کی حرمت کتاب وسنت سے ثابت ہے۔