معجم صغیر للطبرانی - حدیث 65

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابٌ حَدَّثَنَا مُنْتَصِرُ بْنُ نَصْرِ بْنِ مُنْتَصِرٍ الْوَاسِطِيُّ ابْنُ أَخِي تَمِيمِ بْنِ الْمُنْتَصِرِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي الشَّيْءَ أَنْ أَكُونَ حُمَمَةً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّمَ بِهِ فَقَالَ: ((ذَاكَ صَرِيحُ الْإِيمَانِ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ سُفْيَانَ إِلَّا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 65

ایمان کا بیان باب سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں اپنے دل میں ایسے خیالات پاتا ہوں کہ ان کو زبان پر لانے سے یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ کوئلہ بن جاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ صریح ایمان ہے۔‘‘
تشریح : (۱) شیطان مسلمانوں کے دلوں میں برے خیالات اور وسوسے ڈالتے ہیں جس سے مقصود انہیں پریشان اور کبیدہ خاطر کرنا ہوتا ہے۔ جب شیطان وسوسے پیدا کرے تو احادیث میں اس کے دو حل وارد ہوئے ہیں۔ وسوسہ پیدا ہونے پر انسان فوراً (امنت باللہ) کہے پھر اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھے اور دوسرا اس سے متعلق مزید سوچ بچار ترک کردے۔ (دیکھئے: صحیح مسلم:۱۳۲) (۲) یہ صریح ایمان ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ وسوسے کو زبان پر نہ لانا اور خیالات کو قابو میں رکھنا یہ صریح ایمان کی دلیل ہے۔ ورنہ کمزور ایمان ہو تو انسان وسوسوں کی رو میں بہہ جاتا ہے اور ان باطل خیالات کا اعتقاد رکھ کر یا انہیں تسلیم کرکے اسلام وایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
تخریج : مجمع الزاوائد: ۱؍۳۴ قال الهیثمي رجاله رجال الصحیح۔ معجم طبراني کبیر: ۲۰؍۱۷۲۔ (۱) شیطان مسلمانوں کے دلوں میں برے خیالات اور وسوسے ڈالتے ہیں جس سے مقصود انہیں پریشان اور کبیدہ خاطر کرنا ہوتا ہے۔ جب شیطان وسوسے پیدا کرے تو احادیث میں اس کے دو حل وارد ہوئے ہیں۔ وسوسہ پیدا ہونے پر انسان فوراً (امنت باللہ) کہے پھر اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھے اور دوسرا اس سے متعلق مزید سوچ بچار ترک کردے۔ (دیکھئے: صحیح مسلم:۱۳۲) (۲) یہ صریح ایمان ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ وسوسے کو زبان پر نہ لانا اور خیالات کو قابو میں رکھنا یہ صریح ایمان کی دلیل ہے۔ ورنہ کمزور ایمان ہو تو انسان وسوسوں کی رو میں بہہ جاتا ہے اور ان باطل خیالات کا اعتقاد رکھ کر یا انہیں تسلیم کرکے اسلام وایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔