معجم صغیر للطبرانی - حدیث 593

كِتَابُ الجِهَادِ بَابٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرْمُطِيُّ مِنْ وَلَدِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ نَضْلَةَ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ نَضْلَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بَاتَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتَهَا فَقَامَ يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ فَسَمِعَتْهُ يَقُولُ فِي مُتَوَضَّئِهِ: ((لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ ثَلَاثًا نُصِرْتَ نُصِرْتَ، ثَلَاثًا)) فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَمِعْتُكَ تَقُولُ فِي مُتَوَضَّئِكَ: ((لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ ثَلَاثًا نُصِرْتَ نُصِرْتَ، ثَلَاثًا)) كَأَنَّكَ تُكَلِّمُ إِنْسَانًا فَهَلْ كَانَ مَعَكَ أَحَدٌ؟ فَقَالَ: ((هَذَا رَاجِزُ بَنِي كَعْبٍ يَسْتَصْرِخُنِي وَيَزْعُمُ أَنَّ قُرَيْشًا أَعَانَتْ عَلَيْهِمْ بَنِي بَكْرٍ)) ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ عَائِشَةَ أَنْ تُجَهِّزَهُ وَلَا تُعْلِمْ أَحَدًا، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ: يَا بُنَيَّةُ مَا هَذَا الْجِهَازُ؟ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا هَذَا زَمَانُ غَزْوِ بَنِي الْأَصْفَرِ فَأَيْنَ يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: وَاللَّهِ لَا عِلْمَ لِي قَالَتْ: فَأَقَمْنَا ثَلَاثًا ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ بِالنَّاسِ فَسَمِعْتُ الرَّاجِزَ يُنْشِدُهُ: [البحر الرجز] يَا رَبِّ إِنِّي نَاشِدٌ مُحَمَّدَا ... حِلْفَ أَبِينَا وَأَبِيهِ الْأَتْلَدَا إِنَّا وَلَدْنَاكَ وَكُنْتَ وَلَدَا ... ثَمَّةَ أَسْلَمْنَا وَلَمْ نَنْزَعْ يَدَا إِنَّ قُرَيْشًا أَخْلَفُوكَ الْمَوْعِدَا ... وَنَقَضُوا مِيثَاقَكَ الْمُؤَكَّدَا وَزَعَمُوا أَنْ لَسْتَ تَدْعُو أَحَدَا ... فَانْصُرْ هَدَاكَ اللَّهُ نَصْرًا أَيَّدَا وَادْعُ عِبَادَ اللَّهِ يَأْتُوا مَدَدَا ... فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ قَدْ تَجَرَّدَا إِنْ سِيمَ خَسْفًا وَجْهُهُ تَرَبَّدَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ ثَلَاثًا نُصِرْتَ نُصِرْتَ، ثَلَاثًا)) ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا كَانَ بِالرَّوْحَاءِ نَظَرَ إِلَى سَحَابٍ مُنْتَصَبٍ فَقَالَ: ((إِنَّ السَّحَابَ هَذَا لَيَنْتَصِبُ بِنَصْرِ بَنِي كَعْبٍ)) فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَدِيِّ بْنِ عَمْرٍو أَخُو بَنِي كَعْبِ بْنِ عَمْرٍو فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَنَصْرُ بَنِي عَدِيٍّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((تَرِبَ نَحْرُكَ وَهَلْ عَدِيُّ إِلَّا كَعْبٌ وَكَعْبٌ إِلَّا عَدِيُّ)) فَاسْتُشْهِدَ ذَلِكَ الرَّجُلُ فِي ذَلِكَ السَّفَرِ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ((اللَّهُمَّ اعْمِ عَلَيْهِمْ خَبَرَنَا حَتَّى نَأْخُذَهُمْ بَغْتَةً)) ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى نَزَلَ بِمَرْوَ وَكَانَ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ وَحَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ وَبُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ خَرَجُوا تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَشْرَفُوا عَلَى مَرْوَ فَنَظَرَ أَبُو سُفْيَانَ إِلَى النِّيرَانِ فَقَالَ: يَا بُدَيْلُ هَذِهِ نَارُ بَنِي كَعْبٍ أَهْلِكَ فَقَالَ: جَاشَتْهَا إِلَيْكَ الْحَرْبُ فَأَخَذَتْهُمْ مُزَيْنَةُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَكَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحِرَاسَةُ فَسَأَلُوا أَنْ يَذْهَبُوا بِهِمْ إِلَى الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَذَهَبُوا بِهِمْ فَسَأَلَهُ أَبُو سُفْيَانَ أَنْ يَسْتَأْمِنَ لَهُمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ بِهِمْ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ أَنْ يُؤَمِّنَ لَهُ مَنْ آمَنَ فَقَالَ: ((قَدْ أَمَّنْتُ مَنْ أَمَّنْتَ مَا خَلَا أَبَا سُفْيَانَ)) فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تَحْجُرْ عَلَيَّ فَقَالَ: ((مَنْ أَمَّنْتَ فَهُوَ آمِنٌ)) فَذَهَبَ بِهِمُ الْعَبَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ خَرَجَ بِهِمْ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: إِنَّا نُرِيدُ أَنْ نَذْهَبَ فَقَالَ: ((أَسْفِرُوا)) وَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ وَابْتَدَرَ الْمُسْلِمُونَ وَضُوءَهُ يَنْتَضِحُونَهُ فِي وُجُوهِهِمْ فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَا أَبَا الْفَضْلِ لَقَدْ أَصْبَحَ مُلْكُ ابْنِ أَخِيكَ عَظِيمًا فَقَالَ: لَيْسَ بِمُلْكٍ وَلَكِنَّهَا النُّبُوَّةُ وَفِي ذَلِكَ يَرْغَبُونَ لَمْ يَرْوِهِ عَنْ جَعْفَرٍ إِلَّا مُحَمَّدُ بْنُ نَضْلَةَ تَفَرَّدَ بِهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ وَلَا يُرْوَى عَنْ مَيْمُونَةَ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 593

جہاد کا بیان باب سیّدہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتی ہیں ایک دفعہ آپ نے میرے پاس رات گزاری تو آپ اٹھے اور نماز کے لیے وضو کرنے لگے میں نے سنا کہ آپ اپنی وضو والی جگہ میں ’’ لبیک، لبیک‘‘ تین دفعہ فرمایا یعنی میں حاضر ہوں، تیری مدد کی گئی، تیری مدد کی گئی، ’’تین دفعہ فرمایا‘‘ جب نکلے تو میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ سے سنا آپ اپنی وضو کی جگہ میں کہہ رہے تھے ’’میں حاضر، میں حاضر‘‘، تین دفعہ ’’تو مدد کیا گیا تو مدد کیا گیا‘‘ تین دفعہ گویا کہ آپ کسی آدمی سے باتیں کر رہے ہیں ؟ اس وقت آپ کے ساتھ کوئی آدمی موجود تھا؟ فرمایا: ’’یہ بنو کعب کا رجزیہ شعر کہنے والا مجھے پکار رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ قریش نے ان کے خلاف بنو بکر کی مدد کی ہے‘‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ ان کی تیاری کریں اور کسی کو نہ بتائیں۔ وہ کہتی ہیں اسی وقت ابوبکر آئے اور کہنے لگے بیٹی یہ کیا تیاری ہو رہی ہے انہوں نے کہا اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں ابوبکر کہنے لگے اللہ کی قسم یہ رومیوں سے جنگ کا زمانہ بھی نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہاں کا ارادہ کر رہے ہیں انہوں نے کہا واللہ مجھے معلوم نہیں کہتی ہیں کہ پھر ہم تین دن ٹھہرے آپ نے صبح کی نماز لوگوں کو پڑھائی اور ہم نے ایک شعر کہنے والے کو سنا وہ کہہ رہا تھا اے میرے رب! میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دے رہا ہوں جو ہمارے اور اپنے باپ کا پرانا حلیف تھے ہم نے تجھے جنا اور تو بچہ تھا پھر ہم مسلمان ہو گئے اور ہم نے اپنا ہاتھ آپ سے نکالا نہیں، قریش نے آپ سے وعدہ خلافی کی ہے اور اپنا پکا وعدہ آپ سے توڑ دیا ہے وہ کہتے ہیں تم کسی کو نہیں بلا سکتے پس ہماری مدد مضبوط کیجئے اللہ آپ کو ہدایت دے اور اللہ کے بندوں کو بلائیں اور ہماری مدد کریں جن میں اللہ کے نبی اور رسول بھی ہوں جو تلوار ننگی کر چکے ہوں اگر وہ ذلیل ہوں گے تو ان کا چہرہ بدل جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیری مدد کی جائے گی، تیری مدد کی جائے گی‘‘، تین دفعہ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے جب روحاء میں پہنچے تو ایک اٹھتے ہوئے بادل کو دیکھا تو کہنے لگے’’ یہ بادل بنو کعب کی مدد کے لیے اٹھا ہے۔‘‘ بنو عدی بن عمرو کا ایک آدمی کھڑا ہوا جو بنو کعب بن عمرو کا بھائی تھا کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عدی کی بھی مدد کی جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ’’تیرا سینہ خاک آلود ہو عدی کعب ہی تو ہیں اور کعب،عدی ہی تو ہیں ‘‘ تویہ آدمی اس سفر میں حاضر ہوا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ’’اے اللہ ہماری خبر ان پر گمنام کر دے یہاں تک کہ ہم ان پر اچانک حملہ آور ہوں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے حتی کہ ’’ مر‘‘ میں اترے۔ ابو سفیان بن حرب،حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء بھی ساتھ نکلے یہاں تک کہ وہ بھی’’ مر‘‘ میں پہنچ گئے۔ ابو سفیان نے جلتے ہوئے الاؤ دیکھے تو کہا بدیل یہ بنو کعب کے الاؤ ہیں جو تیرے گھر والے ہیں۔ تو اس نے کہا جنگ نے اس کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے اور جوش دلا رہا ہے اس رات انہیں مزینہ نے پکڑ لیا اور ان کے ذمہ پہرہ داری تھی تو انہوں نے بنو مزینہ سے سوال کیا کہ ہمیں عباس بن عبدالمطلب تک پہنچا دو تو وہ ان کے پاس لے گئے انہوں نے عباس سے امن طلب کیا کہ ہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے امان دلائیں۔ تو وہ ان کے پاس لے کر چلے گئے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور آپ سے ان کے لیے امان طلب کی، آپ نے فرمایا: ’’جس کو تو نے امان دی اس کو ہم نے بھی امان دی مگر صرف ابو سفیان اس سے مستثنیٰ ہے۔‘‘ تو عباس کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر پابندی نہ لگائیں آپ نے فرمایا: ’’جس کو تو نے امن دیا وہ امن والا ہے۔‘‘ پھر عباس گئے اور ان کو لے کر نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ابو سفیان کہنے لگا ہم جانا چاہتے ہیں عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا روشنی ہونے دو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور وضو کرنے لگے اور مسلمان ان کے وضو کا پانی حاصل کر کے اپنے چہروں پر چھینٹے لگانے لگے۔ ابو سفیان کہنے لگا! اے ابو الفضل (عباس رضی اللہ عنہ کی کنیت) تیرے بھتیجے کی بادشاہی بہت بڑھ چکی ہے تو عباس کہنے لگے یہ بادشاہی نہیں نبوت ہے اور اسی میں لوگ رغبت کر رہے ہیں۔‘‘
تخریج : معجم طبراني کبیر: ۲۳؍۴۳۳۔ مجمع الزوائد: ۶؍۱۶۴ قال الهیثمي فیه یحیی بن نضلة وهو ضعیف۔