معجم صغیر للطبرانی - حدیث 580

كِتَابُ الجِهَادِ بَابٌ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَقْرٍ السُّكَّرِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ قَالَ: ذَكَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَبْعِينَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ إِذَا جَنَّهُمُ اللَّيْلُ آوَوْا إِلَى مَعْلَمٍ بِالْمَدِينَةِ فَيَبِيتُونَ يَدْرِسُونَ الْقُرْآنَ فَإِذَا أَصْبَحُوا فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ قُوَّةٌ أَصَابَ مِنَ الْحَطَبِ وَاسْتَعْذَبَ مِنَ الْمَاءِ وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ سَعَةٌ أَصَابُوا الشَّاةَ فَأَصْلَحُوا فَكَانَتْ تُصْبِحُ مُعَلَّقَةً بِحِجْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أُصِيبَ خُبَيْبٌ بَعَثَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ فِيهِمْ خَالِي حَرَامُ بْنُ مِلْحَانَ فَأَتَوْا عَلَى حَيٍّ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ فَقَالَ حَرَامٌ لِأَمِيرِهِمْ: أَلَا أُخْبِرُ هَؤُلَاءِ أَنَّا لَسْنَا إِيَّاهُمْ نُرِيدُ فَيُخَلُّوا وُجُوهَنَا؟ قَالُوا: نَعَمْ فَأَتَاهُمْ؟ فَقَالَ لَهُمْ ذَلِكَ فَاسْتَقْبَلَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ بِرُمْحٍ فَأَنْفَذَهُ بِهِ فَلَمَّا وَجَدَ حَرَامٌ مَسَّ الرُّمْحِ فِي جَوْفِهِ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ فَانْطَوَوْا عَلَيْهِمْ فَمَا بَقِيَ مِنْهُمْ مُخْبِرٌ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَى سَرِيَّةٍ وَجْدَهُ عَلَيْهِمْ قَالَ أَنَسٌ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا صَلَّى الْغَدَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ يَدْعُو عَلَيْهِمْ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَى أَبُو طَلْحَةَ يَقُولُ: هَلْ لَكَ فِي قَاتَلِ حَرَامٍ؟ فَقُلْتُ: مَا بَالُهُ؟ فَعَلَ اللَّهُ بِهِ وَفَعَلَ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: لَا تَفْعَلْ؛ فَقَدْ أَسْلَمَ " لَمْ يَرْوِهِ عَنْ سُلَيْمَانَ إِلَّا عَفَّانُ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 580

جہاد کا بیان باب سیّدنا ثابت بنانی کہتے ہیں انس رضی اللہ عنہ نے انصار کے ستر آدمیوں کا ذکر کیا کہ جب انہیں رات آجاتی تو وہ مدینے میں ایک نشان کے پاس جمع ہو جاتے۔ وہاں رات گزارتے اور قرآن پڑھتے جب صبح ہوتی تو جسے طاقت ہوتی تو وہ کچھ ایندھن لے لیتا اور ٹھنڈا پانی پی لیتا اور جس کے پاس گنجائش ہوتی تو وہ بکری لے کر اس کی اصلاح کرتا تو وہ نبی علیہ السلام کے حجرے سے لٹکا دی جاتی۔ جب خبیب کو مصیبت آئی تو نبی علیہ السلام نے ان کو بھیجا تھا۔ جن میں میرا ماموں حرام بن ملحان بھی تھا۔ تو وہ بنو سلیم کے قبیلے کے پاس آئے حرام نے اپنے امیر سے کہا کیا میں انہیں بتا نہ دوں کہ ہم وہ نہیں ہیں تو وہ ہمارے چہرے کھول دیں۔ انہوں نے کہا ہاں کہہ دو۔ تو وہ ان کے پاس آیا اور کہا مگر ایک آدمی نیزہ لے کر اس کے سامنے آگیا اور اسے اس میں گھونپ دیا۔ جب حرام نے نیزے کی ضرب پیٹ میں محسوس کی تو کہا کعبے کے رب کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ تو انہوں نے ان سب کو ختم کر دیا یہاں تک کہ ان میں سے کوئی خبر دینے والا بھی نہ بچا۔ تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سریہ (لڑائی، جنگ) پر اتنا غمگین دیکھا جتنا اور کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب بھی صبح کی نماز پڑھتے تو ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے بدعا کرتے اس کے بعد ابو طلحہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تجھے حرام کے قاتل میں دلچسپی ہے انہوں نے کہا اس کی کیا بات ہے؟ اللہ اس کے ساتھ ایسے اور ایسے کرے ابو طلحہ نے کہا ایسے نہ کہو وہ مسلمان ہو گیا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) اہل الصفہ مسجد نبوی میں رہائش پذیر تھے۔ اپنی محنت مزدوری اور لوگوں کے تعاون سے ان کی گزران ہوتی اور خلوصِ نیت سے اسلامی تعلیمات سیکھتے اور قرآنِ کریم کی تعلیم سے بہرہ مند ہوتے تھے۔ (۲) دھوکے سے قتل ہونے والے مجاہدین شہداء کے زمرہ میں آتے ہیں۔ (۳) مسلمانوں کو دھوکے سے قتل کرنے والوں پر بد دعا کرنا جائز ہے۔ (۴) کفار کی طرف سے آنے والی پریشانیوں پر قنوتِ نازلہ کرنا مسنون عمل ہے۔ (۵) نبی علیہ السلام کو غیب کا علم نہ تھا کہ اگر آپ کو علم ہوتا تو آپ کبھی بھی ان ستر جانثاروں کو ان دھوکہ دینے والے کفار کے حوالے نہ کرتے۔ (۶) اگر کوئی اسلام دشمن مسلمانوں کا قاتل غیر مسلم توبہ و استغفار کر کے اسلام قبول کرے تو اس کے متعلق کلمہ خیر کہنا چاہیے۔
تخریج : مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب القنون، رقم : ۶۷۷۔ مسند احمد: ۳؍۱۳۷۔ معجم الاوسط، رقم : ۳۷۹۳۔ (۱) اہل الصفہ مسجد نبوی میں رہائش پذیر تھے۔ اپنی محنت مزدوری اور لوگوں کے تعاون سے ان کی گزران ہوتی اور خلوصِ نیت سے اسلامی تعلیمات سیکھتے اور قرآنِ کریم کی تعلیم سے بہرہ مند ہوتے تھے۔ (۲) دھوکے سے قتل ہونے والے مجاہدین شہداء کے زمرہ میں آتے ہیں۔ (۳) مسلمانوں کو دھوکے سے قتل کرنے والوں پر بد دعا کرنا جائز ہے۔ (۴) کفار کی طرف سے آنے والی پریشانیوں پر قنوتِ نازلہ کرنا مسنون عمل ہے۔ (۵) نبی علیہ السلام کو غیب کا علم نہ تھا کہ اگر آپ کو علم ہوتا تو آپ کبھی بھی ان ستر جانثاروں کو ان دھوکہ دینے والے کفار کے حوالے نہ کرتے۔ (۶) اگر کوئی اسلام دشمن مسلمانوں کا قاتل غیر مسلم توبہ و استغفار کر کے اسلام قبول کرے تو اس کے متعلق کلمہ خیر کہنا چاہیے۔