معجم صغیر للطبرانی - حدیث 516

كِتَابُ البُيُوعِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَافِعٍ الطَّحَّانُ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ الْأَيْلِيِّ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ((رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا كَيْلًا)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ إِلَّا يُونُسُ وَلَا عَنْ يُونُسَ إِلَّا عَنْبَسَةُ تَفَرَّدَ بِهِ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 516

خريد و فروخت كا بيان باب سیّدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا میں ماپ کر خشک کھجوروں کے عوض درخت پر لگی ہوئی تر کھجوروں کو اندازہ کرکے فروخت کرنے کی اجازت دے دی۔‘‘
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا یعنی درخت کی کھجور کو اتری ہوئی کھجور کے بدلے سے بیچنا۔ مگر عریہ اور عرایا کی اجازت دی۔ وہ یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس سوکھی کھجور موجود ہو لیکن نہ اس کے پاس نقد پیسہ ہو کہ وہ تازہ کھجور خرید سکے نہ اس کا کوئی باغ ہو یا درخت کہ اس میں سے تازہ کھجور اپنے بال بچوں کو کھلائے تو وہ کیا کرے کسی باغ والے کو سوکھی کھجور اندازہ سے دے کر اس کے بدلے وہ کھجور جو درخت پر لگی ہے خرید لے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ضرورت کی وجہ سے درست رکھا مگر یہ شرط لگائی کہ پانچ وسق سے کم کا معاملہ کرے کیونکہ اس سے زیادہ کی بال بچوں کے کھلانے کو ضرورت نہیں ہوتی۔ کھجور کے اوپر دوسرے میوؤں کا بھی قیاس ہوسکتا ہے جیسے انگور وغیرہ۔ امام مالک نے کہا عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ میں سے ایک یا دو درخت کا میوہ کسی محتاج کو دے پھر بار بار اس محتاج کے باغ میں آنے سے باغ کے مالک کو تکلیف ہو تو وہ اس درخت کا میوہ اندازہ کرکے اسی قدر خشک میوے کے بدلے اس سے خرید کرے۔ بعض نے کہا: عریہ یہ ہے کہ مسکین جس کو ایک یا د ودرخت کا میوہ ملا ہے وہ اس کے کٹنے تک انتظار نہ کرسکے تو اندازہ سے خشک میوے کے بدلے کسی کے ہاتھ بیچ ڈالے یہ درست ہے۔ (لغات الحدیث: ۳؍۱۵۷)
تخریج : بخاري، کتاب البیوع، باب تفسیر العرایا، رقم : ۲۱۹۲۔ مسلم، کتاب البیوع باب النهي عن بیع الثمار، رقم : ۱۵۳۹۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا یعنی درخت کی کھجور کو اتری ہوئی کھجور کے بدلے سے بیچنا۔ مگر عریہ اور عرایا کی اجازت دی۔ وہ یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس سوکھی کھجور موجود ہو لیکن نہ اس کے پاس نقد پیسہ ہو کہ وہ تازہ کھجور خرید سکے نہ اس کا کوئی باغ ہو یا درخت کہ اس میں سے تازہ کھجور اپنے بال بچوں کو کھلائے تو وہ کیا کرے کسی باغ والے کو سوکھی کھجور اندازہ سے دے کر اس کے بدلے وہ کھجور جو درخت پر لگی ہے خرید لے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ضرورت کی وجہ سے درست رکھا مگر یہ شرط لگائی کہ پانچ وسق سے کم کا معاملہ کرے کیونکہ اس سے زیادہ کی بال بچوں کے کھلانے کو ضرورت نہیں ہوتی۔ کھجور کے اوپر دوسرے میوؤں کا بھی قیاس ہوسکتا ہے جیسے انگور وغیرہ۔ امام مالک نے کہا عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ میں سے ایک یا دو درخت کا میوہ کسی محتاج کو دے پھر بار بار اس محتاج کے باغ میں آنے سے باغ کے مالک کو تکلیف ہو تو وہ اس درخت کا میوہ اندازہ کرکے اسی قدر خشک میوے کے بدلے اس سے خرید کرے۔ بعض نے کہا: عریہ یہ ہے کہ مسکین جس کو ایک یا د ودرخت کا میوہ ملا ہے وہ اس کے کٹنے تک انتظار نہ کرسکے تو اندازہ سے خشک میوے کے بدلے کسی کے ہاتھ بیچ ڈالے یہ درست ہے۔ (لغات الحدیث: ۳؍۱۵۷)