معجم صغیر للطبرانی - حدیث 463

كِتَابُ الذَّبَائِحِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الْأَنْطَاكِيُّ قَرْقَرْةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَصْرٍ الْأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((ذَكَاةُ الْجَنِينِ ذَكَاةُ أُمِّهِ)) لَمْ يَرْوِهِ مَرْفُوعًا عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ إِلَّا أَبُو أُسَامَةَ تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَصْرٍ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 463

ذبح كا بيان باب سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی جانور کے پیٹ کا بچہ ’’جنین‘‘ بھی اپنی ماں کے ذبح کرنے سے ذبح ہوجاتا ہے۔‘‘
تشریح : یہ حدیث دلیل ہے کہ اگر حاملہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے مردہ بچہ برآمد ہو تو وہ حلال ہے اس کی ماں کا ذبح کرنا ہی اس کا ذبح کرنا ہے۔ یعنی حاملہ جانور کو ذبح کرنے کے حکم کا اطلاق اس کے پیٹ کے بچے پر بھی ہے پھر اگر وہ زندہ برآمد ہو تو اسے ذبح کرنا لازم ہے۔ صاحب عون المعبود بیان کرتے ہیں : یہ حدیث دلیل ہے کہ حاملہ جانور کے ذبح کرنے سے اس کے پیٹ کا بچہ بھی ذبح ہوجاتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے، جب جنین پیٹ سے مردہ برآمد ہو لیکن اگر بچہ پیٹ سے زندہ نکلے تو اسے حلال کرنے کے لیے الگ سے ذبح کرنا لازم ہے۔ ثوری، شافعی، حسن بن زیاد اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کے دونوں شاگرد امام یوسف اور امام محمد بھی اسی مؤقف کے قائل ہیں۔ (عون المعبود: ۶؍۲۸۷)
تخریج : سنن ابي داود، کتاب الذبائح، باب ما جاء فی ذکاة الجنین، رقم : ۲۸۲۸ قال الشیخ الالباني صحیح۔ سنن ترمذي، رقم : ۱۴۷۶۔ سنن ابن ماجة، رقم : ۳۱۹۹۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ اگر حاملہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے مردہ بچہ برآمد ہو تو وہ حلال ہے اس کی ماں کا ذبح کرنا ہی اس کا ذبح کرنا ہے۔ یعنی حاملہ جانور کو ذبح کرنے کے حکم کا اطلاق اس کے پیٹ کے بچے پر بھی ہے پھر اگر وہ زندہ برآمد ہو تو اسے ذبح کرنا لازم ہے۔ صاحب عون المعبود بیان کرتے ہیں : یہ حدیث دلیل ہے کہ حاملہ جانور کے ذبح کرنے سے اس کے پیٹ کا بچہ بھی ذبح ہوجاتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے، جب جنین پیٹ سے مردہ برآمد ہو لیکن اگر بچہ پیٹ سے زندہ نکلے تو اسے حلال کرنے کے لیے الگ سے ذبح کرنا لازم ہے۔ ثوری، شافعی، حسن بن زیاد اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کے دونوں شاگرد امام یوسف اور امام محمد بھی اسی مؤقف کے قائل ہیں۔ (عون المعبود: ۶؍۲۸۷)