معجم صغیر للطبرانی - حدیث 428

كِتَابُ الْحَجِّ وَ الْعُمْرَةِ بَابٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ أَيُّوبَ الْمَدِينِيُّ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اسْتَقْبَلَ الْحَجَرَ فَقَبَّلَهُ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَمْلِكُ لِي ضُرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنْ مَنْصُورٍ بْنِ الْمُعْتَمِرِ إِلَّا أَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ وَاسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 428

حج وعمرہ کا بیان باب عابس بن ربیعہ کہتے ہیں میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حجر اسود کی طرف متوجہ ہوکر اس کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا پھر انہوں نے کہا خبردار اللہ کی قسم! تو صرف ایک پتھر ہے میرے لیے کسی نفع اور نقصان کا موجب نہیں بن سکتا۔ اگر میں نے تجھے بوسہ دیتے ہوئے نبی علیہ السلام کو نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘
تشریح : (۱) طواف میں حجر اسود کو چھونے کے بعد اسے بوسہ دینا مستحب فعل ہے اس طرح حجر اسود پر سجدہ کرنا بھی مستحب ہے شافعیہ اور جمہور علماء اس مذہب کے قائل ہیں۔ (۲) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں دیا اور یہ وضاحت بھی کی کہ انہوں نے یہ عمل فقط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں کیا ہے۔ مقصود لوگوں کو اس عمل کی ترغیب دینا تھا۔ (۳) خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو مخاطب کرکے یہ کلمات (تو فقط ایک پتھر نہ نفع ونقصان کا مالک نہیں ) اس لیے کہے تاکہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے عمل سے ایسے نو مسلم افراد جن کے دلوں میں پتھروں کی تعظیم والفت اور ان سے نفع کی امید اور نقصان کا خوف تھا (وہ اس عمل سے دھوکہ میں مبتلا نہ ہوں ) اور دوبارہ پتھروں کی تعظیم وعبادت کو درست تسلیم نہ کرلیں۔ ( شرح النووي: ۴؍۳۷۹)
تخریج : بخاري، کتاب الحج، باب ما ذکر فی الحجر الاسود، رقم : ۱۵۹۷۔ مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبل الحجر، رقم : ۱۲۷۰۔ (۱) طواف میں حجر اسود کو چھونے کے بعد اسے بوسہ دینا مستحب فعل ہے اس طرح حجر اسود پر سجدہ کرنا بھی مستحب ہے شافعیہ اور جمہور علماء اس مذہب کے قائل ہیں۔ (۲) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں دیا اور یہ وضاحت بھی کی کہ انہوں نے یہ عمل فقط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں کیا ہے۔ مقصود لوگوں کو اس عمل کی ترغیب دینا تھا۔ (۳) خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو مخاطب کرکے یہ کلمات (تو فقط ایک پتھر نہ نفع ونقصان کا مالک نہیں ) اس لیے کہے تاکہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے عمل سے ایسے نو مسلم افراد جن کے دلوں میں پتھروں کی تعظیم والفت اور ان سے نفع کی امید اور نقصان کا خوف تھا (وہ اس عمل سے دھوکہ میں مبتلا نہ ہوں ) اور دوبارہ پتھروں کی تعظیم وعبادت کو درست تسلیم نہ کرلیں۔ ( شرح النووي: ۴؍۳۷۹)