معجم صغیر للطبرانی - حدیث 330

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ نَافِعٍ أَبُو حَبِيبٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ سُلَيْمَانَ يَعْنِي الْقُبِّيَّ، عَنْ قَتَادَةَ الْأَعْمَى، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ فَقَالَتْ: " كَانَ قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَرِيضَةً حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ﴿يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ [المزمل: 2] فَكَانَ أَوَّلَ فَرِيضَةٍ فَكَانُوا يَقُومُونَ حَتَّى تَتَفَطَّرَ أَقْدَامُهُمْ وَحَبَسَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آخِرَ السُّورَةِ عَنْهُمْ حَوْلًا ثُمَّ أَنْزَلَ ﴿عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا لَمْ يَرْوِهِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ سُلَيْمَانَ الْكُوفِيِّ إِلَّا يَزِيدُ وَلَا عَنْهُ إِلَّا ابْنُ لَهِيعَةَ تَفَرَّدَ بِهِ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 330

نماز كا بيان باب سیّدنا سعد بن ہشام کہتے ہیں میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے قیام کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: ﴿یَا اَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ() قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا﴾ (المزمل : ۱،۲) یعنی کمبل اوڑھنے والے رات کو اٹھ کر قیام کریں مگر تھوڑا وقت۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رات کا قیام فرض ہو گیا۔ یہ پہلا فریضہ تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی رات کو اُٹھ کر قیام کرتے یہاں تک کہ ان کے پاؤں پھٹ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا آخری حصہ ایک سال تک نازل نہ فرمایا: ’’پھر یہ آیت نازل فرمائی: ﴿عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْهُ فَتَابَ عَلَیْکُمْ فَاقْرَؤا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾ ( المزمل: ۲۰)’’ یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم اس کی طاقت نہیں رکھ سکتے تو اس نے تمہاری توبہ قبول فرمائی تو قرآن سے جو آسان ہو وہ پڑھو۔‘‘ تو رات کا قیام نفل ہو گیا۔‘‘
تشریح : (۱) شروع اسلام میں تمام مسلمانوں پر قیام اللیل واجب تھا۔ پھر اس فرضیت کو منسوخ قرار دیا گیا۔ لہٰذا امت کے لیے قیام اللیل کا اہتمام مستحب ہے۔ (۲) یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ امت کے لیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قیام اللیل نفل ہے۔ پھر امت کے لیے تو بالاجماع رات کی نماز نفل ہے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں قیام اللیل کی فرضیت منسوخ ہے یا نہیں۔ اس بارے علماء کا اختلاف ہے اور راجح بات یہ ہے کہ قیام اللیل کی فرضیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی منسوخ ہے۔ (عون المعبود: ۳؍۲۸۸)
تخریج : سنن ابي داود، کتاب الصلاة، باب نسخ قیام اللیل، رقم : ۱۳۰۴ قال الشیخ الالباني حسن۔ (۱) شروع اسلام میں تمام مسلمانوں پر قیام اللیل واجب تھا۔ پھر اس فرضیت کو منسوخ قرار دیا گیا۔ لہٰذا امت کے لیے قیام اللیل کا اہتمام مستحب ہے۔ (۲) یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ امت کے لیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قیام اللیل نفل ہے۔ پھر امت کے لیے تو بالاجماع رات کی نماز نفل ہے۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں قیام اللیل کی فرضیت منسوخ ہے یا نہیں۔ اس بارے علماء کا اختلاف ہے اور راجح بات یہ ہے کہ قیام اللیل کی فرضیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی منسوخ ہے۔ (عون المعبود: ۳؍۲۸۸)