معجم صغیر للطبرانی - حدیث 306

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقَزْوِينِيُّ، بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الْمِهْرِقَانِيُّ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ الْقَرَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ صَلَاةَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ هُنَيْهَةً فَخَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: ((مَا تَنْتَظِرُونَ؟)) قَالُوا: الصَّلَاةَ قَالَ: ((أَمَا إِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا فِيهَا مَا انْتَظَرْتُمُوهَا)) ثُمَّ رَفَعَ بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ: ((النُّجُومُ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى أَهْلَ السَّمَاءِ مَا يُوعَدُونَ وَأَنَا أَمَانٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِي أَمَانٌ لِأُمَّتِي فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ أَقِمْ يَا بِلَالُ)) لَمْ يَرْوِهِ عَنِ ابْنِ سُوقَةَ إِلَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، تَفَرَّدَ بِهِ رَبِيعَةُ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 306

نماز كا بيان باب سیّدنا محمد بن المنکدر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز کچھ دیر مؤخر کر دی پھر آپ باہر تشریف لائے تو فرمانے لگے‘‘ تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو‘‘؟ وہ کہنے لگے ہم نماز کا انتظار کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’تم جب تک اس کا انتظار کرتے رہے اس وقت تک نماز میں رہے۔‘‘ پھر آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو فرمایا: ’’ستار ے آسمان والوں کے لیے امان ہیں جب ستارے چلے جائیں تو آسمان والوں کے پاس وہ چیز آجائے گی جس کا وعدہ کئے جاتے ہیں۔ اور میں اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے امان ہوں جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ کے پاس وہ کچھ آجائے گا جس کا وہ وعدہ کئے جاتے ہیں۔ اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں جب میرے صحابہ چلے جائیں تو میری امت کے پاس وہ چیز آجائے گی جس کا وہ وعدہ کئے جاتے ہیں۔ بلال اٹھیں اقامت کہیں۔( نماز کھڑی کریں )
تشریح : (۱) نماز عشاء کو مؤخر کرنا افضل عمل ہے اور نماز کے منتظر جب تک نماز کے انتظار میں ہوں نمازی ہی شمار ہوتے ہیں۔ (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی صحابہ کے لیے امن کا سرٹیفکیٹ تھی کہ آپ کی زندگی میں فتنے باہمی جنگ وجدل اور ارتداد کا فتنہ دبا رہا ہے اور آپ کی وفات کے ساتھ تمام فتنوں نے سر اٹھا لیا۔ (۳) صحابہ کرام کا وجود امت کے لیے باعث رحمت تھا کہ ان کی موجو دگی میں بدعات وحوادث نے اسلام میں سرایت نہ کیا اور اسلام کا ڈھانچہ محفوظ رہا اور بنیادی عقائد میں تاویل وتحریف نہ ہوئی۔
تخریج : مستدرك حاکم: ۳؍۵۱۷، رقم: ۵۹۲۶۔ معجم الاوسط، رقم : ۶۶۸۷۔ مجمع الزوائد: ۱؍۳۱۲۔ طبراني کبیر: ۲۰؍۳۶۰ قال الهیثمي ورجاله ثقات۔ (۱) نماز عشاء کو مؤخر کرنا افضل عمل ہے اور نماز کے منتظر جب تک نماز کے انتظار میں ہوں نمازی ہی شمار ہوتے ہیں۔ (۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی صحابہ کے لیے امن کا سرٹیفکیٹ تھی کہ آپ کی زندگی میں فتنے باہمی جنگ وجدل اور ارتداد کا فتنہ دبا رہا ہے اور آپ کی وفات کے ساتھ تمام فتنوں نے سر اٹھا لیا۔ (۳) صحابہ کرام کا وجود امت کے لیے باعث رحمت تھا کہ ان کی موجو دگی میں بدعات وحوادث نے اسلام میں سرایت نہ کیا اور اسلام کا ڈھانچہ محفوظ رہا اور بنیادی عقائد میں تاویل وتحریف نہ ہوئی۔