معجم صغیر للطبرانی - حدیث 252

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُثْمَانَ الدَّبَّاغُ الْمِصْرِيُّ، بِمِصْرَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نَافِعٍ الطَّحَّانُ الْمُعَدِّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ أَبُو صَالِحٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَكَانَ يَرُدُّ عَلَيْنَا قَبْلَ أَنْ نَخْرُجَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ فَأَخَذَنِي مَا قَرُبَ وَمَا بَعُدَ فَقُلْتُ: مَالِي أَحَدَثَ فِيَّ حَدَثٌ أَوَ نَزَلَ فِيَّ شَيْءٌ؟ فَقَالَ: ((لَا يَا ابْنَ مَسْعُودٍ إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ فِي أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ وَإِنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ)) هَكَذَا رَوَى الْحَدِيثَ عَبْدُ الْغَفَّارِ عَنْ سُفْيَانَ فَإِنْ كَانَ حَفِظَهُ فَهُوَ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ مَنْصُورٍ وَرَوَاهُ الْحُمَيْدِيُّ وَغَيْرُهُ مِنْ أَصْحَابِ سُفْيَانَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ الْمَحْفُوظُ

ترجمہ معجم صغیر للطبرانی - حدیث 252

نماز كا بيان باب سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حبشہ جانے سے پہلے ہم نماز کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے تو آپ ہمیں جواب دیا کرتے تھے۔ جب ہم حبشہ سے واپس آئے تو میں نے آپ کو سلام کہا آپ نے اس کا جواب نہیں دیا تو جو میرے قریب یا دور تھا اس نے مجھے پکڑا تو میں نے کہا کیا میرے متعلق کوئی نیا حکم آگیا ہے یا میرے اندر کوئی نئی چیز پیدا ہو گئی تو آپ نے فرمایا: ’’ابن مسعود! یہ بات نہیں اللہ تعالیٰ اپنے کاموں میں سے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اب نئی بات یہ ہوئی ہے کہ نماز میں کلام نہ کرو۔‘‘
تشریح : (۱) ہجرت حبشہ سے قبل نماز میں ضروری گفتگو کرنا اور سلام کا جواب بول کر دینا جائز تھا۔ پھر یہ جواز منسوخ کردیا گیا اور نماز میں گفتگو پر پابندی لگا دی گئی۔ لہٰذا نماز میں کسی بھی قسم کی ضروری گفتگو یا سلام کا لفظوں میں جواب دینا درست نہیں۔ (۲) سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ہم نماز میں بات چیت کیا کرتے تھے کہ ہم میں سے ایک اپنے بھائی سے ضرورت کی گفتگو کر لیتا حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا لِله قٰنِتِیْنَ﴾ (البقرہ: ۲۳۸) تو ہمیں نماز میں بات چیت سے روک دیا گیا۔ (دیکھئے: صحیح بخاري، رقم: ۴۵۳۴) (۳) نماز میں گفتگو کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ (۴) نمازی سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دے گا اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جس حالت میں ہے اسی حالت میں دائیں ہاتھ کو حرکت دے دے۔
تخریج : بخاري، کتاب فضائل الصحابة، باب هجرة الحبشة، رقم : ۳۸۷۵۔ مسلم، کتاب المساجد، باب تحریم الکلام، رقم : ۵۳۸۔ (۱) ہجرت حبشہ سے قبل نماز میں ضروری گفتگو کرنا اور سلام کا جواب بول کر دینا جائز تھا۔ پھر یہ جواز منسوخ کردیا گیا اور نماز میں گفتگو پر پابندی لگا دی گئی۔ لہٰذا نماز میں کسی بھی قسم کی ضروری گفتگو یا سلام کا لفظوں میں جواب دینا درست نہیں۔ (۲) سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ہم نماز میں بات چیت کیا کرتے تھے کہ ہم میں سے ایک اپنے بھائی سے ضرورت کی گفتگو کر لیتا حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا لِله قٰنِتِیْنَ﴾ (البقرہ: ۲۳۸) تو ہمیں نماز میں بات چیت سے روک دیا گیا۔ (دیکھئے: صحیح بخاري، رقم: ۴۵۳۴) (۳) نماز میں گفتگو کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ (۴) نمازی سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دے گا اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جس حالت میں ہے اسی حالت میں دائیں ہاتھ کو حرکت دے دے۔